Maktaba Wahhabi

261 - 738
’’بسم اللّٰه۔۔۔‘‘ جہراً پڑھنا: جب کوئی شخص اکیلا نماز پڑھے گا تو وہ بہرحال بلا آواز ہی ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ پڑھے گا۔نماز چاہے ظہر و عصر وغیرہ سرّی قراء ت والی ہو یا فجر و مغرب اور عشا و جمعہ وغیرہ جہری قراء ت والی نماز۔لیکن اگر وہ دوسروں کی امامت کروا رہا ہو اور نماز بھی جہری قراء ت والی ہے تو امام ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ آہستہ آواز سے پڑھے یا بلند آواز سے؟اس سلسلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین عظام،ائمہ و فقہا اور محدثین رحمہ اللہ کے دو معروف مسلک ہیں۔ ابن سید الناس اور امام حازمی کے بیان کے مطابق بعض صحابہ کرام مثلاً حضرت عمر فاروق،حضرت ابن عمر،حضرت ابن زبیر،حضرت ابن عباس،حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہم کے علاوہ امام خطیب بغدادی کے قول کے مطابق،حضرت ابوبکر صدیق،حضرت عثمان غنی،حضرت ابو قتادہ،حضرت ابو سعید خدری،حضرت ابی بن کعب،حضرت انس بن مالک،حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ،حضرت شداد بن اوس،حضرت عبداللہ بن جعفر،حضرت امیر معاویہ اور حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہم اور لا تعدا د تابعینِ کرام رحمہم اللہ جہری نمازوں(فجر و مغرب اور عشا و جمعہ وغیرہ)میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ کو جہری اور بلند آواز سے پڑھنے کے قائل تھے۔[1] جبکہ حضرت عمر،حضرت ابوہریرہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہم سے سراً پڑھنے کی روایات بھی ملتی ہیں۔ امام خطیب بغدادی نے جہری آواز سے ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ پڑھنے کے قائلین تابعین رحمہم اللہ کے بارے میں کہا ہے کہ ان کی تعداد شمار سے باہر ہے۔انھوں نے جو نام گنوائے ہیں،وہ کچھ یوں ہیں:حضرت سعید بن مسیب،طاؤس،عطا،مجاہد،ابو وائل،سعید بن جبیر،ابن سیرین،عکرمہ،علی بن حسین،ان کا بیٹا محمد بن علی،سالم بن عبداللہ،محمد بن منکدر،ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم،محمد بن کعب،حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام نافع،ابو شعثاء،عمر بن عبدالعزیز،مکحول،حبیب بن ابی ثابت،زہری،ابو قلابہ،علی بن عبداللہ بن عباس اور ان کا بیٹا علی،ازرق بن قیس اور عبداللہ بن معدن بن مقرن رحمہم اللہ،تبع تابعین میں سے جو حضرات:’’بِسْمِ اللّٰہِ…‘‘ کی جہری قراء ت کے قائل تھے،ان میں سے عبیداللہ عمری،حسن بن زید،زید بن علی بن حسین،محمد بن عمر بن علی،ابن ابی ذئب،لیث بن سعد
Flag Counter