Maktaba Wahhabi

262 - 738
اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ بطورِ خاص قابل ذکر ہیں۔ امام بیہقی نے تابعین میں سے مذکورہ ناموں کے علاوہ عبداللہ بن صفوان،محمد بن حنفیہ اور سلیمان التمیمی اور تبع تابعین میں سے معتمر بن سلیمان کا اضافہ کیا ہے۔امام شافعی،اسماعیل بن حماد اور ابو خالد رحمہم اللہ بھی جہر کے قائل تھے۔اور ابو ثور اور عبداللہ بن مبارک رحمہم اللہ کے نام بھی قائلینِ جہر میں شمار کیے جاتے ہیں۔خلافیاتِ بیہقی کے مطابق تمام آلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جہر کے قائل تھے۔[1] جہراً بسم اللہ پڑھنے کے دلائل: 1۔ بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے کے قائلین صحابہ کرام،تابعین عظام،تبع تابعین اور ائمہ و فقہا کا استدلال متعدد احادیث سے ہے۔جن میں سے پہلی حدیث صحیح بخاری شریف میں مروی ہے۔امام قتادہ فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ سے پوچھا گیا: ((کَیْفَ کَانَ قِـرَائَ ۃُ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم؟(قَالَ)کَانَتْ مَدًّا،ثُمَّ قَرَاَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ،یَمُدُّ بِسْمِ اللّٰہِ وَیَمُدُّ بِالرَّحْمٰنِ وَیَمُدُّ بِالرَّحِیْمِ))[2] ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کا کیا انداز ہوتا تھا؟(تو انھوں نے فرمایا:)آپ صلی اللہ علیہ وسلم الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھا کرتے تھے۔پھر انھوں نے ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ پڑھا اور ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ اور ’’الرَّحْمٰنِ‘‘ اور ’’الرَّحِیْمِ‘‘ کو کھینچا یعنی لمبا کیا۔‘‘ بخاری شریف کی اس حدیث سے ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کو اونچی آواز سے پڑھنے والوں نے یوں استدلال کیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کا جو انداز بتایا ہے،اس میں انھوں نے ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ سے شروع کیا اور ظاہر ہے کہ انھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس انداز سے تلاوت فرماتے سنا،تبھی بیان کیا ہے اور انھوں نے اسے تب ہی سنا تھا جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے بلند آواز سے پڑھا کرتے تھے۔حضرت اَنس رضی اللہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کے بارے میں مطلقاً ایسے بیان کیا ہے۔یہ نہیں کہ ایسی قراء ت نماز سے باہر ہوتی تھی،بلکہ نماز وغیر نماز ہر دو حالتوں کا علی الاطلاق ذکر ہے۔یہ حدیث تو سنن ابو داود و ترمذی اور نسائی و ابنِ ماجہ میں بھی مروی ہے،لیکن سنن میں صرف
Flag Counter