Maktaba Wahhabi

265 - 738
پر وارد کی گئی ہے،لیکن وہاں ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کا ذکر نہیں آیا۔البتہ نماز میں قراء ت کے تحت امام ترمذی نے اسے غریب و غیر متصل قرار دیا ہے،جبکہ فضائل القرآن میں جا کر اسے صحیح قرار دیا ہے جو اتصال کے حصول ہی کی وجہ سے ہوگا۔ایسے ہی یہ حدیث صحیح ابن حبان،سنن دارقطنی اور مستدرک حاکم میں بھی مروی ہے،جہاں ایک راوی عمر بن ہارون بلخی موثوق وغیر موثوق ہونے میں مختلف فیہ ہے۔یعمری نے موثوق اور ابن حجر نے غیر موثوق قرار دیا ہے،جبکہ امام شوکانی نے اس کے غیر موثوق ہونے ہی کی تائید کی ہے۔[1] غرض کہ ان تین احادیث کا مجموعی مفاد اس بات کا پتا دیتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے بسم اللہ پڑھا کرتے تھے۔ان احادیث کی تائید جید اور ضعیف دسیوں احادیث سے ہوتی ہے۔جسے تفصیلی تخریج مطلوب ہو،وہ نیل الاوطار(2/ 3/ 36۔38،40،41)نصب الرایہ(1/ 324 تا 326 وصفحہ 335۔355)دیکھ سکتا ہے۔’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کو بلند آواز سے پڑھنے کا پتا متعدد آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی چلتا ہے جن کی تخریج بھی علامہ زیلعی نے ’’نصب الرایہ‘‘(1/ 356 تا 357)میں کر دی ہے۔ بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔سِرّاً پڑھنا: ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ کے بارے میں دوسرا مسلک یہ ہے کہ جہری قراء ت والی نمازوں میں بھی امام اسے سراً یعنی بلا آواز پڑھے۔یہ بھی متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مسلک ہے۔چنانچہ امام ابن سید الناس نے شرح ترمذی میں حضرت عمر فاروق،حضرت علی اور حضرت عمار رضی اللہ عنہم کے اسماے گرامی ذکر کیے ہیں۔بعض صحابہ سے سرّ وجہر دونوں کی روایات ملتی ہیں،لیکن بعض صحابہ سے صرف سراً ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنے ہی کی روایت ملتی ہے۔ان میں سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ ہیں۔ابوجعفر محمد بن علی بن حسین،حسن بصری اور ابن سیرین رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت ابن عباس اور ابن زبیر رضی اللہ عنہم سے سراً پڑھنے کی روایات بھی ملتی ہیں اور جہراً کی بھی،جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے۔حضرت سفیان،حکم،حماد،ابو عبید،احمد بن حنبل،ابو حنیفہ اور نخعی رحمہم اللہ سے بھی سِراً ’’بِسْمِ اللّٰہِ۔۔۔‘‘ پڑھنا ہی منقول ہے۔[2] امام ترمذی و حازمی نے کہا ہے کہ اکثر اہلِ علم کا مسلک
Flag Counter