Maktaba Wahhabi

301 - 738
موجود ہے۔پس ان دونوں میں فرق کرنے کی بہت زیادہ تکلیف برداشت کرنی کچھ ضروری نہیں۔وجۂ اوّل یہ کہ دونوں حرف مجہور ہیں۔دوم یہ کہ دونوں رخوہ ہیں۔سوم یہ کہ دونوں مطبقہ ہیں۔چہارم یہ کہ گو ظا کا مخرج گوشۂ زبان اور اوپر کے دانتوں کے اطراف سے ہے اور زبان کا ابتدائی حافہ(کنارہ)اور وہ حصہ جو ڈاڑھوں سے چمٹا ہے،مخرج ضاد ہے،مگر چونکہ ضاد میں اس کی رخاوت کے باعث انبساط ہوتا ہے،اس لیے مخرجِ ظا مخرج ضاد کے بالکل قریب ہے۔یعنی ثابت ہوا کہ ان دونوں میں قوی مشابہت کے باعث فرق کرنا مشکل امر ہے۔ تفسیر اتقان میں ہے: ’’ومنہا أي من أنواع التناجس،وہو تشابہ اللفظین في اللفظ،اللفظي بأن یختلفا بحرف مناسب للآخر مناسبۃ لفظیۃ کالضاد والظاء کقولہ تعالٰی:﴿وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ - اِِلٰی رَبِّھَا نَاظِرَۃٌ﴾‘‘[1] یعنی قرآنِ مجید میں دو لفظ علاحدہ علاحدہ بوجہ تناجس و تشابہ لفظی کے بولنے میں یکساں ہیں،جیسے ’’ناضرہ‘‘ اور ’’ناظرہ۔‘‘ تفسیر عزیزی میں ہے:’’بدانکہ فرق میانِ مخرج ضاد و ظا بسیار مشکل است‘‘ یعنی ’’ض‘‘ اور ’’ظ‘‘ میں فرق کرنا نہایت مشکل ہے۔ فقہی حوالہ جات: ’’خزانۃ الروایات‘‘ میں ہے: ’’لأن العوام لا یقدرون أن یفصلوا بین الضاد والظاء والذال والزاء‘‘[2] ’’عام لوگ ’’ض‘‘ اور ’’ظ‘‘ اور ’’ذ‘‘ اور ’’ز‘‘ میں فرق نہیں کر سکتے۔‘‘ کبیری شرح منیہ میں ہے: ’’ہذا فصل وہو إبدال أحد ہذہ الحروف الثلاثۃ أعني الضاد والظاء والذال‘‘[3] ’’ان تینوں حرفوں ’’ض‘‘ اور ’’ظ‘‘ اور ’’ذ‘‘ کے آپس میں بدل جانے کا بیان۔‘‘
Flag Counter