Maktaba Wahhabi

324 - 738
ثقہ ہیں۔امام بیہقی نے کتاب القراء ۃ میں بھی لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔علامہ سیوطی نے بھی ’’الجامع الصغیر‘‘ میں اس حدیث کے ساتھ اس کے حسن ہونے کی علامت درج کی ہے۔[1] حافظ ابن حجر نے ’’التلخیص الحبیر‘‘(1/ 1/ 87)میں اس حدیث کو نقل کیا ہے،لیکن اس پر کوئی کلام نہیں کیا،جو اُن کے نزدیک اس کے حسن اور قوی ہونے کی علامت ہے۔جیسا کہ ’’انہاء السکن‘‘ میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے اور ’’معارف السنن‘‘ میں مولانا محمد یوسف بنوری نے بھی یہی بات کہی ہے۔[2] گذشتہ صفحات میں ذکر کی گئی مرفوع اور موقوف احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ سورۃ الکافیہ: یہاں یہ بات بھی ذکر کرتے جائیں کہ سورت فاتحہ کے مختلف ناموں میں سے اس کا ایک نام ’’الکافیہ‘‘ بھی ہے،جیسا کہ فضائل و مسائلِ فاتحہ کے شروع میں بھی کچھ تفصیل گزری ہے۔کافیہ کا معنی ہے کفایت کرنے والی کہ صرف اسے ہی پڑھ لیا جائے تو یہ کفایت کر جاتی ہے۔چنانچہ اس کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے عبداللہ بن یحییٰ فرماتے ہیں کہ اسے کافیہ اس لیے کہا گیا ہے: ’’اِنَّہَا تَکْفِیْ عَنْ سِوَاہَا وَلاَ یَکْفِیْ سِوَاہَا عَنْہَا‘‘[3] ’’یہ سورت دوسری سورت کی قراء ت سے کفایت کر جاتی ہے لیکن دوسری کسی سورت کی قراء ت اس سے کفایت نہیں کرتی۔‘‘ چھٹی دلیل: امام ابو عبید رحمہ اللہ نے سیار بن سلامہ رحمہ اللہ سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ پر ایک مہاجر گر پڑا جبکہ وہ رات کو تہجد پڑھ رہے تھے: ’’یَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ،لاَیَزِیْدُ عَلَیْہَا وَیُکَبِّرُ وَیُسَبِّحُ ثُمَّ یَرْکَعُ وَیَسْجُدُ‘‘ ’’وہ صرف سورت فاتحہ پڑھتے تھے،اس کے علاوہ مزید قراء ت نہیں کرتے تھے،پھر تسبیح و تکبیر بیان کرتے اور رکوع و سجود کرتے تھے۔‘‘
Flag Counter