Maktaba Wahhabi

347 - 738
متاخرین علماء احناف میں سے علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے بھی سورت فاتحہ کے علاوہ کچھ پڑھ لینے ہی کو اختیار کیا ہے۔چنانچہ وہ ’’التعلیق الممجّد علٰی موطأ الإمام محمد‘‘(ص:102)میں لکھتے ہیں کہ ہمارے بعض علما نے عجیب موقف اختیار کیا ہے کہ سورت فاتحہ کے علاوہ کوئی سورت پڑھ لے تو اس پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ سجدئہ سہو کرے۔جبکہ ’’مُنیۃ المُصلِّی‘‘ کے شارحین ابراہیم حلبی اور ابن امیرالحاج وغیرہما نے سجدئہ سہو والے اس موقف کی بڑے اچھے طریقے سے تردید کی ہے اور اس میں شک کی کوئی گنجایش نہیں کہ سجدئہ سہو کو واجب قرار دینے والوں کو یہ حدیث نہیں پہنچی ہوگی اور اگر یہ حدیث انھیں پہنچ گئی ہوتی تو وہ ایسا ہر گز نہ کہتے۔ نمازِ عصر: نمازِ عصر کی پہلی دو رکعتوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورت فاتحہ اور دو سورتیں پڑھا کرتے تھے اور پہلی رکعت میں دوسری رکعت کی نسبت قراء ت طویل کرتے تھے،اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ لوگوں کو پہلی رکعت میں ملنے کا موقع مہیا فرماتے تھے،جیسا کہ ذکر گزرا ہے۔ظہر کی پہلی دو رکعتوں کی قراء ت سے نصف یعنی تقریباً پندرہ آیات کے برابر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی پہلی دو رکعتوں میں قراء ت کرتے تھے اور آخری دو رکعتیں پہلی دو رکعتوں کے بھی نصف کے برابر ہوتی تھیں،جیسا کہ صحیح مسلم اور دوسری کتاب میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ سے مروی حدیث ابھی ہم نے ذکر کی ہے۔نمازِ عصر میں بھی عموماً وہی قراء ت ہے جو کہ نماز ظہر میں ذکر کی گئی ہے، 1۔ جیسا کہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ سے صحیح مسلم،سنن ابو داود،ترمذی و نسائی میں مروی ہے: ((کَانَ یَقْرَأُ فِی الظُّہْرِ وَالْعَصْرِ بِالسَّمَآئِ وَالطَّارِقِ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ وَنَحْوِہَا مِنَ السُّوَرِ))[1] ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ ظہر و عصر میں{وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِقِ﴾اور{وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ﴾اور ان جیسی سورتیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘ 2۔ سنن ابو داود و ترمذی و نسائی اور صحیح ابن خزیمہ میں حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ ہی سے مروی ہے:
Flag Counter