Maktaba Wahhabi

362 - 738
مکروہ ہے،کیونکہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف فعل ہے۔اگر ہمیشہ ساری رات کا قیام و عبادت افضل عمل ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرور اسے اپناتے۔بہترین طریقہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا طریقہ ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک فضیلت کی حقیقت: یہاں ایک واقعے کی طرف اشارہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے فضائل و مناقب کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اتنے عبادت گزار اور شب زندہ دار تھے کہ انھوں نے چالیس سال تک مسلسل نمازِ عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھی۔اس بات کے مقبول یا غیر مقبول ہونے بلکہ صحیح یا غیر صحیح ہونے میں سب سے اہم عنصر یہ ہے کہ آیا یہ بات ان سے صحیح سند کے ساتھ ثابت بھی ہے یا نہیں؟دوسرا یہ کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ،جو دیگر کثیر فضائل و مناقب کے حامل تھے،کیا ان کے لیے ایسی فضیلت ثابت کرنا ضروری ہے جو سند کے اعتبار سے لا اصل اور سنت کے بھی خلاف ہے۔ان کے فضائل وہ بیان کیے جائیں جو صحیح ثابت ہوں اور ان کے حق میں جاتے ہوں نہ کہ وہ جو اُن کے خلاف جاتے ہوں۔ یہ بات قطعاً صحیح نہیں اور نہ امام صاحب کے شایانِ شان ہے۔اس خود ساختہ فضیلت کے بارے میں صاحبِ قاموس علامہ فیروزآبادی رحمہ اللہ ’’الرّدّ علی المعترض‘‘(1/ 44)میں لکھتے ہیں کہ یہ بات واضح جھوٹ ہے۔اس کی نسبت امام صاحب کی طرف کرنا قطعاً ان کے لائق نہیں اور اس میں کوئی قابل ذکر فضیلت بھی نہیں،کیونکہ ایسے جلیل القدر امام کے شایانِ شان بات تو یہ ہے کہ افضل فعل پر عمل کرے اور افضل و اتم اور اکمل فعل یہ ہے کہ ہر نماز کے لیے از سر نو طہارت و وضو کیا جائے۔یہ بھی اس حالت میں ہے کہ جب یہ صحیح سند سے ثابت ہو جائے کہ انھوں نے چالیس سال مسلسل شب بیداری کی ہوگی،جبکہ دراصل یہ بات ناممکن و محال امور کے زیادہ قریب ہے۔علامہ فیروز آبادی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ یہ بات ان متعصب و جاہل لوگوں کی خرافات میں سے ہے جنھوں نے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ رحمہم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں مشہور کر رکھی ہیں جو سب جھوٹ ہیں۔[1]
Flag Counter