Maktaba Wahhabi

364 - 738
پہلی رکعت میں سورۃ الزلزال{اِِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا﴾اور دوسری رکعت میں سورۃ الکافرون{قُلْ یٰاَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ﴾پڑھا کرتے تھے۔[1] ایک وضاحت: یہاں اس بات کی وضاحت بھی کرتے جائیں کہ بعض لوگ اس حدیث کی بنا پر عشا کے وقت نمازِ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے ہیں اور وہ بھی بیٹھ کر،جبکہ یہ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ہے تو دوسری طرف صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود اور دیگر کتبِ حدیث میں وارد ارشادِ گرامی ہے: ((اِجْعَلُوْا آخِرَ صَلاَتِکُمْ بِاللَّیْلِ وِتْرًا))[2] ’’اپنی رات کی آخری نماز وتر کو بناؤ۔‘‘ اہل علم کا اس بات میں اختلاف ہے کہ ان دونوں حدیثوں میں موافقت و مطابقت کیسے پیدا کی جائے؟کیونکہ ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے کہ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وتر کو آخری نماز بناؤ۔چنانچہ بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ ان دونوں حدیثوں میں تطبیق پیدا کرنے کی جتنی بھی توجیہات بیان کی گئی ہیں،ان میں سے کوئی بھی قابل ترجیح نہیں ہے کہ کسی پر عمل کیا جائے۔لہٰذا زیادہ قرین احتیاط یہی ہے کہ وتر کے بعد یہ دو رکعتیں نہ پڑھی جائیں۔[3] بعض دیگر اہل علم نے وتروں کے بعد اور خصوصاً جب نمازِ عشا کے ساتھ ہی وتر پڑھے جائیں تو پھر ان دو رکعتوں کو پڑھنا صحیح قرار نہیں دیا۔ان رکعات کی مختلف وجوہات بیان کی گئی ہیں،جن میں سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دو رکعتیں پڑھی ہیں۔وہ نمازِ تہجد کے آخر میں سحری کے وقت پڑھی ہیں۔دوسرے یہ کہ جس طرح آج نمازِ عشا کے ساتھ ہی وتر پڑھ کر یہ دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھی جاتی ہیں،یہ بھی اس طرح ثابت نہیں،بلکہ الفاظِ حدیث بتا رہے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر یہ دو رکعتیں اس انداز سے پڑھیں کہ جب رکوع کا وقت آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو جاتے اور کھڑے کھڑے رکوع فرماتے تھے،جبکہ آج کل ایسا نہیں کیا جاتا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ہے اور دوسری طرف
Flag Counter