ہمارے ساتھ نماز پڑھ رہی ہے تو میں نے ارادہ کر لیا کہ اس کی ماں کو جلد اس بچے کے لیے فارغ کر دوں۔‘‘
صحیح بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اِنِّیْ لَأَدْخُلُ فِی الصَّلَاۃِ وَاَنَا اُرْیِدُ اِطَالَتَھَا فَاَسْمَعُ بُکَائَ الصَّبِیِّ فَاَتَجَوَّزُ فِیْ صَلَاتِیْ مِمَّا اَعْلَمُ مِنْ شِدَّۃِ وَجْدِ اُمِّہٖ مِنْ بُکَائِہٖ))[1]
’’میں نمازمیں داخل ہوتا ہوں تو یہ ارادہ ہوتا ہے کہ لمبی نماز پڑھوں گا،پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں،کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے سے اس کی ماں کو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
اگر ایسی کوئی صورت پیدا نہ ہوتی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً کسی سورت کی ابتدا سے قراء ت شروع کرتے تو اسے مکمل کرتے،جیسا کہ اس سے متعلق کتنی ہی احادیث گزری ہیں۔مسند احمد اور مصنف ابن ابی شیبہ میں مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((اَعْطُوْا کُلَّ سُوْرَۃٍ حَظَّہَا مِنَ الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ))[2]
’’ہر سورت کو رکوع و سجود سے اس کا حصہ دو(یعنی ایک رکعت میں پوری سورت پڑھو)۔‘‘
جبکہ قیام اللیل مروزی اور معانی الآثار طحاوی میں ارشاد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((لِکُلِّ سُوْرَۃٍ رَکْعَۃٌ))[3] ’’ہر رکعت میں پوری سورت پڑھو۔‘‘
یہ حکم بھی استحباب کے لیے ہے،ورنہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ثابت ہے کہ ایک ہی سورت کو آدھا آدھا کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں میں پڑھ لیتے تھے،جیسا کہ قراء ت کے احکام و مسائل کے ضمن میں احادیث گزر چکی ہیں۔
بعض آیات کی قراء ت پر جواب دینا:
قراء ت کے احکام و مسائل میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ قرآنِ کریم کی بعض آیات ایسی
|