Maktaba Wahhabi

380 - 738
اس حدیث میں اس بات کی طرف تو اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو صرف اتنا بتا رہی ہیں کہ میں نے کسی نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کلمات کہتے ہوئے سنا ہے۔یہ کلمات ایک دعا ہیں اور نماز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعائیں کرنا ثابت و معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں دعائیں کرتے تھے اور تشہد کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے بھی دعائیں کرتے تھے۔اس حدیث میں کسی وقت کی تعیین نہیں آئی،لہٰذا معلوم نہیں کہ ان کلمات کو سورۃ الغاشیہ کی آیت کا جواب کس بنا پر قرار دیا گیا ہے؟یہ ایک دعا ہے اور دعا کسی بھی موقع پر کی جا سکتی ہے۔سورۃ الغاشیہ کی آخری آیات{اِنَّ اِلَیْنَا اِیَابَھُمْ - ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ﴾میں حساب کتاب کا ذکر آیا ہے اور اس دعا میں حساب آسان کرنے کا مطالبہ ہے۔شاید اسی وجہ سے اس دعا کو سورۃ الغاشیہ کی آخری آیت کا جواب بنا دیا گیا ہے۔[1] لیکن دلیل اس کا ساتھ نہیں دیتی۔ مقتدیوں کے لیے حکم: اسی طرح یہاں ایک اور بات بھی قابلِ وضاحت ہے کہ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ جب امام مذکور بالا مخصوص آیات کی تلاوت کرے جن کا جواب دینا بھی ثابت ہے تو امام اور مقتدی سبھی ان کا جواب دیں اور جہری نمازوں میں مقتدی بھی جہراً جواب دیں۔جبکہ ان احادیث سے یہ نتیجہ نکالنا کئی وجوہات کی بنا پر صحیح نہیں ہے۔مثلاً: 1۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے جو حدیث حذیفہ بن یمان رضی اللہ سے ذکر کی گئی ہے،جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تسبیح و تعوذ اور التجا و سوال کی آیات پر ایسا کرنے کا ذکر آیا ہے،تو اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے کا ذکر تو مزید ہے،لیکن مقتدیوں کو ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ہاں امام اور منفرد دونوں اس پر عمل کر سکتے ہیں،کیونکہ یہ مستحب فعل ہے۔ 2۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث جس میں سورۃ الاعلیٰ کی پہلی آیت کے بعد ’’سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰی‘‘ کہنے کا ذکر آیا ہے،اس میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ذکر ہوا ہے۔مقتدی کے ایسا کرنے کی اس میں کوئی تصریح نہیں ہے۔ 3۔ موسیٰ بن ابی عائشہ والی حدیث میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نقل ہوا ہے،جو امام اور منفرد کے لیے تو صحیح ہے،لیکن مقتدی کے لیے واضح نہیں ہے۔
Flag Counter