Maktaba Wahhabi

417 - 738
بیک وقت یکجا کر کے پڑھا جا سکتا ہے یا نہیں؟اس سلسلے میں اہل علم کی مختلف آرا ہیں۔علامہ ابن قیم تو زاد المعاد[1] میں اس معاملے میں متردّد ہیں،البتہ امام نووی نے اپنی معروف کتاب ’’الاذکار‘‘[2]میں جزماً کہا ہے کہ اگر ممکن ہو تو ان تمام اَذکار کو ایک ہی رکوع میں جمع کر لینا افضل ہے،اور یہی معاملہ دوسرے مقامات پر وارد ہونے والی دعاؤں اور اَذکار کا بھی ہے۔[3] جبکہ برصغیر کے کبار علما میں سے والا جاہ علامہ نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ(رئیس و والی ریاست بھوپال)نے امام نووی کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کبھی ایک دعا پڑھ لے اور کبھی دوسری،سب کو بیک وقت جمع کرنے کی کوئی دلیل نہیں،کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف اذکار کو ایک ہی مقام پر جمع نہیں کیا کرتے تھے،بلکہ کبھی ایک اور کبھی دوسرا کر لیتے تھے،اور ایجادِ نو سے اتباعِ سنت ہی بہتر ہے۔[4] علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے ’’صفۃ الصّلاۃ‘‘ میں نواب صاحب رحمہ اللہ کی بات ہی کو حق قرار دیا ہے۔اگرچہ طویل رکوع و سجود کی شکل میں قیام اللیل مروزی میں ابن جریج عن عطا کی سند سے امام نووی رحمہ اللہ والا طریقہ بھی مروی ہے۔[5] البتہ ایک ہی دعا کو بار بار پڑھتے جانے والا طریقہ ہی اقرب الی السنہ ہے۔[6] رکوع اور سجدے میں تلاوتِ قرآن کی ممانعت: یہاں اس بات کی طرف متنبہ کر دینا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے کہ رکوع و سجود میں تسبیحات و اَذکار میں چاہے کتنا وقت لگائیں،کارِ ثواب ہے،البتہ ان مواقع پر قرآن کریم کی تلاوت کرنا منع ہے،نماز چاہے فرض ہو یا نفل،کیونکہ صحیح مسلم و ابی عوانہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((۔۔۔اَلَا اِنِّیْ نُہِیْتُ اَنْ اَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَاکِعًا اَوْ سَاجِدًا،فَاَمَّا الرُّکُوْعُ فَعَظِّمُوْا فِیْہِ الرَّبَّ،وَاَمَّا السُّجُوْدُ فَاجْتَہِدُوْا فِی الدُّعَائِ،فَقَمِنٌ اَنْ یُّسْتَجَابَ لَکُمْ))[7]
Flag Counter