Maktaba Wahhabi

418 - 738
’’خبردار!مجھے رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے سے روکا گیا ہے،البتہ رکوع میں اپنے پروردگار کی عظمت بیان کرو اور سجدوں میں دعائیں مانگو،سجدے میں کی گئی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ہے۔‘‘ تاریخ دمشق ابن عساکر رحمہ اللہ میں اس روایت کے آخر میں جو اضافی الفاظ آئے ہیں کہ نفلی نماز ہو تو اس کے رکوع و سجود میں تلاوت کر لینے میں کوئی حرج نہیں،کبار محدثین کرام نے اس اضافے کو شاذ یا منکر قرار دیا ہے اور خود ابن عساکر رحمہ اللہ نے اسے معلول کہا ہے،لہٰذا اس پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔[1] اس حدیث میں دُعا سے صرف وہی دُعائیں مراد ہیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں،جن میں سے رکوع کی دُعائیں ہم ذکر کر چکے ہیں اور سجود کی دعائیں ان کے موقع پر ذکر کی جائیں گی،ان شاء اللہ۔اب رہی یہ بات کہ رکوع و سجود یا نماز کے کسی بھی حصے میں مثلاً تشہد وغیرہ میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت عام دُعاؤں میں سے بھی کوئی دُعا کی جا سکتی ہے یا نہیں؟اس سلسلے میں اہلِ علم کے اقوال مختلف ہیں جن کی تفصیل ہم سلام سے پہلے قعدے کی دعاؤں کے ضمن میں جا کر بیان کریں گے،ان شاء اللہ۔بہرحال رکوع و سجود کی مسنون اور ثابت شدہ دعائیں بھی کافی ہیں اور انہی میں برکت ہے،لہٰذا رکوع میں انہی پر اکتفا کیا جائے۔ مدرکِ رکوع کی رکعت: اگر کوئی شخص مسجد میں پہنچے اور امام رکوع میں جا چکا ہو تو وہ بھی تکبیر تحریمہ اور تکبیرِ انتقال کہتے ہوئے رکوع میں چلا جائے۔امام دارقطنی رحمہ اللہ نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ سے روایت بیان کی ہے کہ ایسے موقع پر اگر صرف ایک ہی تکبیر کہہ لے تو وہ تحریمہ و انتقال دونوں سے کفایت کر جائے گی۔[2] چونکہ اس سے قیام اور قراء ت کرنا دونوں ہی سب چھوٹ گئے ہیں،لہٰذا وہ اس رکعت کو شمار کرنے کے بجائے امام کے سلام پھیرنے کے بعد اس رکعت کو پڑھ لے۔اس مسئلے میں اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے،جس کی لمبی چوڑی تفصیلات ہم ’’فاتحہ خلف الامام‘‘ کے ضمن میں بیان کر چکے ہیں جو الگ کتابی شکل میں بھی چھپ چکی ہے،لہٰذا انھیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔
Flag Counter