Maktaba Wahhabi

431 - 738
وجوہ سمجھی جاسکتی ہیں اور اس سے پہلے والے دس دلائل اس پر مستزاد ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دیں کہ یہ کوئی حلال اور حرام کا اختلاف ہے نہ جائز و ناجائز کا،بلکہ یہ تو ایک تحقیقی اختلاف ہے۔لہٰذا اس مسئلے میں جس شخص کو جس جانب کے دلائل زیادہ مطمئن کر رہے ہوں وہ اسی پر عمل کر لے۔اس کا یہ معنی نہیں کہ ایک پہلو پر عمل کرے تو دوسرے والوں کو موردِ الزام ٹھہرائے یا طعن و تشنیع کا رویہ اختیار کرے۔ہر گز نہیں،یہ انداز تو کہیں بھی مطلوب نہیں،چہ جائیکہ ایسے تحقیقی مسائل میں اختیار کیا جائے؟ اس ذکر کی فضیلت: اس تسمیع و تحمید کی حدیث شریف میں بہت فضیلت آئی ہے،حتیٰ کہ صحیح بخاری و مسلم،سنن ترمذی،شرح السنہ اور موطا امام مالک میں وارد حدیث سے پتا چلتا ہے کہ اللہ کے فرشتے بھی جماعت کے ساتھ یہ ذکر کرتے ہیں۔آمین ہی کی طرح اس ذکر کے بارے میں ان مذکورہ کتب میں وارد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ والی حدیث میں مروی ہے: ((فَاِنَّہٗ مَنْ وَافَقَ قَوْلُہٗ قَوْلَ الْمَلَائِکَۃِ غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ))[1] ’’جس کا یہ کہنا فرشتے کے کہنے سے مل گیا تو اس کے پہلے تمام گناہ بخشے گئے۔‘‘ جبکہ صحیح مسلم،سنن ابو داود،مسند احمد اور ابو عوانہ کی ایک دوسری حدیث میں ہے: ’’جب امام ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ‘‘ کہتا ہے تو تم ’’اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ کہو۔‘‘ ’’یَسْمَعُ اللّٰہُ لَکُمْ۔۔۔الخ‘‘[2] ’’اللہ تعالیٰ تمھاری سن لے گا۔‘‘ 5۔ قومے کے اذکار میں سے ’’رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ‘‘ اور دوسرے تین صیغوں سمیت چار اذکار تو یہ ہیں جن کے الفاظ معمولی معمولی فرق سمیت ذکر کیے جا چکے ہیں،جبکہ اس موقع پر امام و مقتدی کی نسبت سے تسمیع و تحمید سے متعلقہ امور بھی سامنے آ گئے۔اسی قومے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور بھی کئی اذکار ثابت ہیں جن میں سے ایک ذکر کی تو بہت زیادہ فضیلت وارد ہوئی ہے۔لہٰذا اسے تو ضرور ہی ’’رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ‘‘ کے ساتھ پڑھ لینا چاہیے۔
Flag Counter