Maktaba Wahhabi

445 - 738
امامِ بے حضور: ظاہر ہے کہ یہ تبھی ہوگا جب امام ٹھہر ٹھہر کر مسنون طریقے سے نماز پڑھا رہا ہو اور ٹکریں نہ مروا رہا ہو۔ورنہ پھر ایسے میں تو امام کے پیچھے پیچھے مگر تیزی سے چلنا مجبوری ہو جائے گا۔ایسے امام کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنانا چاہیے،کیونکہ ایسے ’’بے حضور امام‘‘ کی تو اپنی نماز بھی صحیح نہ ہوگی،چہ جائیکہ مقتدیوں کی ہو۔ نمازِ بے سرور: گذشتہ صفحات میں ذکر کی گئی تمام تفصیلات سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ امام کی متابعت کی تاکید اور امام سے سبقت کرنے کی وعید اور قومہ وغیرہ میں اطمینان و سکون جیسے اُمور میں کوتاہی منفرد سے سرزد ہو یا امام و مقتدی سے،سبھی کے لیے نازیبا اور نادرست ہے۔ایسی جلدی جلدی میں کی گئی عبادت میں سرور کہاں سے آئے گا؟ایسی نماز تو روحانیت کے جوہر سے عاری محض چند مشینی حرکات کا مجموعہ بن کر رہ جاتی ہے۔ایسے افعال کا ارتکاب کرنے والے نمازیوں سے مخاطب ہو کر علامہ اقبال نے کہا تھا: تیری نماز بے سرور،تیرا امام بے حضور ایسی نماز سے گزر،ایسے امام سے گزر! قومے میں ہاتھوں کی کیفیت: قومے سے سجود کے لیے جھکنے کے سلسلے میں کون سا انداز احادیث میں آیا ہے اور پہلے زمین پر ہاتھ رکھے جائیں یا گھٹنے؟اس بات کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ بات آپ کے گوش گزار کر دیں کہ یہاں کہیں کہیں بعض لوگ رکوع سے اٹھ کر رفع یدین کرنے کے بعد قومے میں ہاتھوں کو نیچے چھوڑنے کے بجائے اسی طرح باندھ لیتے ہیں جس طرح پہلے انھوں نے قیام میں باندھے ہوتے ہیں۔ہمارے پاک و ہند والے لوگ انھیں بڑے تعجب آمیز انداز سے دیکھتے ہیں،حالانکہ یہ کوئی عجوبہ اور اچنبھا نہیں ہے،بلکہ بعض کبار علما و مفتیانِ کرام نے ایسا کرنے کا کہا ہے،جن میں سے سماحۃ الشیخ علامہ ابن باز رحمہ اللہ جیسے کبار علماء حجاز بھی شامل ہیں۔ان کا استدلال اُن احادیث سے ہے جن میں دورانِ قیام ہاتھ باندھنے کا حکم آیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جس طرح نماز میں رکوع کے وقت ہاتھوں کا گھٹنوں پر رکھنا اور سجود میں ہاتھوں کا زمین پر رکھنا احادیث شریفہ میں آیا ہے،اسی طرح کھڑے ہونے یا قیام کی حالت میں
Flag Counter