Maktaba Wahhabi

449 - 738
﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ۔۔۔﴾[الحج:77] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو!رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو۔‘‘ سجدہ کی رکنیت و فرضیت کا پتا گذشتہ صفحات میں ذکر کی گئی اور انہی جیسی دوسری احادیث سے چلتا ہے جن میں امر کے صیغے سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدے کا حکم فرمایا ہے اور اس بات پر پوری اُمت اسلامیہ کا اجماع ہے کہ سجدہ نماز کا اہم ترین رکن و فرض ہے،جیسا کہ کتبِ شروحِ حدیث و فقہ اسلامی میں مذکور ہے۔ سجدے میں جانے کی کیفیت: رکوع و قومہ اور ان کے اذکار سے فارغ ہو کر سجدہ کیا جاتا ہے،جس کے لیے زمین پر پہلے ہاتھ پھر گھٹنے رکھنے کا طریقہ بھی مروّج ہے اور پہلے گھٹنے اور پھر ہاتھ رکھنے کا بھی۔ان دونوں طریقوں میں سے ازروے دلیل کون سا انداز قوی اور صحیح تر ہے؟اس بات کا پتا لگانے کے لیے دونوں کے دلائل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ پہلے ہاتھ رکھنے کے دلائل: تو آئیے!پہلے زمین پر ہاتھ اور پھر گھٹنے رکھنے والوں کے دلائل دیکھیں: 1۔ سنن ابو داوٗد و نسائی،مشکل الآثار و شرح معانی الآثار،سنن دارمی،دارقطنی،بیہقی اور مسند احمد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اِذَا سَجَدَ اَحَدُکُمْ فَلَا یَبْرُکْ کَمَا یَبْرُکُ الْبَعِیْرُ وَلْیَضَعْ یَدَیْہِ قَبْلَ رُکْبَتَیْہِ))[1] ’’جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اس طرح نہ بیٹھے،جیسے اونٹ بیٹھتا ہے،بلکہ اسے گھٹنوں سے پہلے دونوں ہاتھ رکھنے چاہئیں۔‘‘ ا۔تردید نظریۂ ضعف: اس حدیث کو کبار محدثین کرام نے صحیح قرار دیا ہے جس کی تفصیل کے لیے شرح السنہ کی تحقیق
Flag Counter