Maktaba Wahhabi

450 - 738
از شیخ شعیب الارناووط(3/ 135)،زاد المعاد کی تحقیق از شیخ شعیب الارناووط و شیخ عبدالقادر الارناووط(1/ 223)،ارواء الغلیل از شیخ البانی(2/ 78)،شرح المواہب زرقانی(7/ 320)کما فی الارواء(2/ 78)و تحقیق الاحسان(5/ 240)المجموع شرح المہذب امام نووی(3/ 394)دیکھیے۔علامہ عبدالرحمن مبارک پوری نے تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا کم از کم حسن لذاتہ ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔[1] حافظ عبدالحق اشبیلی کی ’’الأحکام الکبریٰ‘‘ سے نقل کیا گیا ہے کہ انھوں نے بھی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے،جبکہ ان کی دوسری کتاب ’’کتاب التّہجّد‘‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس حدیث سے سند کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے،جس میں گھٹنے پہلے رکھنے کا ذکر آیا ہے۔[2] ب۔تردید نظریۂ قلب و اضطراب: البتہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کے متن میں قلب اضطراب پایا جاتا ہے،کیوں کہ اصل میں حدیث یوں تھی: ((وَلْیَضَعْ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ))’’اسے چاہیے کہ ہاتھوں سے پہلے گھٹنے زمین پر رکھے۔‘‘ مختلف روایات میں الگ الگ الفاظ ہیں۔اس سلسلے میں جو گفتگو انھوں نے ’’زاد المعاد‘‘ میں کی ہے،وہ جلد اول کے صفحہ(223)سے لے کر صفحہ(231)تک پھیلی ہوئی ہے۔اس پر زاد المعاد کے محققین شیخ شعیب و عبدالقادر نے تحقیق زاد المعاد(1/ 223۔230)میں،شیخ احمد شاکر نے تحقیق ترمذی(1/ 58،59)میں،علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے تحفہ الاحوذی(3/ 138،139)میں اور علامہ البانی نے صفۃ الصلاۃ(ص:82)میں مختصراً اور ارواء الغلیل(2/ 175۔180)میں اور الضعیفۃ(2/ 328۔332)میں مفصل تعاقب کیا ہے اور علامہ ابن قیم کے اس نظریۂ قلب و اضطراب کی سختی سے تردید کی ہے اور اپنے دلائل بھی ذکر کیے ہیں،جن کی تفصیلات مذکورہ مقامات پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ 2۔ پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے زمین پر رکھنے کی دوسری دلیل صحیح بخاری شریف میں تعلیقاً اور موقوفاً حضرت علی رضی اللہ و ابن عمر رضی اللہ اور صحیح ابن خزیمہ،سنن دارقطنی،بیہقی،معانی الآثار طحاوی،
Flag Counter