Maktaba Wahhabi

459 - 738
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ فعل روایت کرنے میں اس نے عبیداللہ بن عمر رحمہ اللہ کی مخالفت بھی کی ہے،جو اس سے کہیں زیادہ ثقہ ہیں۔[1] یہ آثار ضعیف و موقوف ہونے کی وجہ سے اور یہ احادیث ضعیف ہونے کی وجہ سے اس بات کی دلیل نہیں بن سکتیں کہ نمازی کو سجدے میں جاتے وقت پہلے گھٹنے زمین پر رکھنے چاہییں اور پھر ہاتھ،بلکہ صحیح احادیث کی رُو سے پہلے ہاتھ اور پھر گھٹنے رکھنا ثابت ہوتا ہے۔ ذ۔اونٹ کے گھٹنے: البتہ اس سے قبل والے اثر فاروقی میں ایک بات واضح طور پر آ گئی ہے کہ اونٹ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہے جو اس کی اگلی ٹانگوں میں ہوتے ہیں۔جب یہ بات ہے تو پھر نمازی کو زمین پر گھٹنے پہلے نہیں رکھنے چاہییں،کیونکہ اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔[2] جیسا کہ اس مفہوم کی بعض احادیث ذکر کی جا چکی ہیں۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس سے انکار کیا ہے کہ اونٹ کے گھٹنے اگلی ٹانگوں میں ہوں اور لکھا ہے کہ یہ بات اہل لغت کے علم میں بھی نہیں ہے۔[3] جبکہ ان کی یہ بات ایک تسامح ہے۔زاد المعاد کے محققین کے علاوہ کبار اہل علم نے اس پر ان کا تعاقب کیا ہے۔چونکہ اس معنی کی حدیث سے جانبین ہی نے استدلال کیا ہے،لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ کے گھٹنوں کے بارے میں کچھ تحقیقی جائزہ پیش کر دیا جائے،جس سے پتا چل سکے کہ اس معاملے میں کون سی جانب مبنی برحق ہے اور کس طرف خطا ہے۔ از روے لغت: علامہ ابن قیم نے تو زاد المعاد میں کہہ دیا ہے کہ اونٹ کے گھٹنوں کا اس کی اگلی ٹانگوں میں ہونا لغت عربی کے ماہرین کے یہاں بھی معروف و متعارف نہیں ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عرب اہل لغت کے یہاں یہ بات ملتی ہے کہ اونٹ کے گھٹنے اس کی اگلی ٹانگوں ہی میں ہوتے ہیں،پچھلی میں
Flag Counter