Maktaba Wahhabi

470 - 738
((فَصَلّٰی بِنَا النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم حَتّٰی رَاَیْتُ اَثْرَ الطِّیْنِ وَالْمَائِ عَلَی جَبْہَۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَاَرْنَبَتِہٖ))[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی،یہاں تک کہ میں نے پانی اور مٹی کا اثر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پردیکھا۔‘‘ 4۔ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین نماز پڑھنے والی معروف حدیث میں مروی ہے: ((إِنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ اِذَا سَجَدَ اَمْکَنَ اَنْفَہٗ وَجَبْہَتَہُ الْاَرْضَ،وَ نَحّٰی یَدَیْہِ عَنْ جَنْبَیْہِ وَوَضَعَ کَفَّیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ))[2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو پیشانی اور ناک کو اچھی طرح زمین پر لگاتے تھے،بازوؤں کو پہلو سے الگ رکھتے اور اپنی ہتھیلیوں کو اپنے کندھوں کے برابر زمین پر رکھتے تھے۔‘‘ 5۔ انہی احادیث کی تائید مسند احمد میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ سے مروی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ((رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَسْجُدُ عَلٰی اَنْفِہٖ مَعَ جَبْہَتِہٖ))[3] ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی اور ناک پر سجدہ کیا۔‘‘ 6۔ سنن دارمی،مستدرک حاکم،معجم طبرانی کبیر اور اخبار اصبہان ابو نعیم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث کی رو سے ناک کو زمین پر نہ لگانے والے کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ چنانچہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّا یُصِیْبُ اَنْفَہٗ مِنَ الْاَرْضِ مَا یُصِیْبُ الْجَبِیْنَ))[4] ’’اس کی نماز نہیں ہوتی جس کی ناک بھی پیشانی کی طرح زمین پر نہ لگے۔‘‘ مذاہب العلماء: ان احادیث کی بنا پر بہ وقتِ سجدہ پیشانی کے ساتھ ہی ناک کو بھی زمین پر لگانے کے واجب ہونے کا کہا گیا ہے۔چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ آدمی اپنی جبین اور ناک دونوں کو زمین پر لگائے۔اگر صرف پیشانی زمین پر لگائے اور ناک کو نہ لگائے تو اہل علم میں سے ایک جماعت نے کہا ہے کہ اس کی نماز ہو جائے گی۔جبکہ بعض دوسروں نے کہا ہے کہ جب تک پیشانی اور ناک دونوں پر سجدہ نہ کرے،نماز نہیں ہوگی۔[5] امام نووی نے شرح صحیح مسلم میں لکھا ہے کہ ان احادیث کے افادات میں سے ایک تو یہ ہے کہ نمازی سجدے میں پیشانی اور ناک سمیت سات اعضا کو زمین پر لگائے اور پیشانی کھلی ہوئی یعنی ننگی ہونی چاہیے،کسی چیز سے ڈھکی ہوئی نہ ہو۔یہ واجب ہے،جبکہ ناک لگانا مستحب ہے۔اگر کوئی نہ لگائے تو اس کی نماز ہو جائے گی اور اگر پیشانی زمین پر نہ لگائی،صرف ناک لگائی تو نماز نہیں ہوگی۔امام شافعی،امام مالک اور اکثر ائمہ و فقہا کا یہی مسلک ہے،جبکہ امام ابو حنیفہ اور مالکیہ میں سے صرف ابوالقاسم کا کہنا ہے کہ نمازی جس پر چاہے کفایت کر سکتا ہے۔ امام احمد بن حنبل اور مالکیہ میں سے ابن حبیب کا کہنا ہے کہ ان احادیث کے ظاہر کی رُو سے پیشانی اور ناک دونوں کا لگانا واجب ہے۔اکثر اہل علم کے نزدیک ان احادیث کی رو سے پیشانی اور ناک کا ایک ہی عضو کا حکم ہے،کیونکہ حدیث میں سات کا عدد آیا ہے اور اگر ان دونوں کو الگ الگ شمار کیا جائے تو سات کی بجائے آٹھ اعضا ہو جاتے ہیں،البتہ ناک کا ذکر استحباباً ہے۔[6] جبکہ حافظ ابن حجر نے اس پر امام ابن دقیق العید سے تعاقب نقل کیا ہے اور لکھا ہے کہ بلاشک پیشانی اور ناک دونوں درحقیقت مجموعی اعضاے سجدہ میں شامل ہیں جیسا کہ احادیث میں ہے اور ایسی چیز پیشانی کے صریح ذکر کے معارض نہیں ہو سکتی۔[7]
Flag Counter