Maktaba Wahhabi

491 - 738
((کَانَ النَّاسُ یُصَلُّوْنَ مَعَ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَہُمْ عَاقِدُوْا اُزَرَہُمْ مِنَ الصِّغَرِ عَلٰی رِقَابِہِمْ،فَقِیْلَ لِلنِّسَائِ:لَا تَرْفَعْنَ رُؤُوْسَکُنَّ حَتّٰی یَسْتَوِیَ الرِّجَالُ جُلُوْسًا))[1] ’’لوگ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور انھوں نے چادریں(تہبند)چھوٹی ہونے کی وجہ سے گردنوں سے باندھی ہوئی ہوتی تھیں۔لہٰذا عورتوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ اُس وقت تک سجدے سے سر نہ اٹھائیں،جب تک مرد سجدے سے اُٹھ کر بیٹھ نہ جائیں۔‘‘ اس حدیث سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کپڑے کی تنگی اور ستر کھلنے کے خدشے وغیرہ جیسے عذر کی بنا پر اگر کوئی کپڑے کو گرہ لگاتا یا سمیٹتا ہے تو وہ اس ممانعت سے مستثنیٰ ہے۔ حکمت: بالوں یا کپڑوں کو سمیٹنے کی اس ممانعت میں کئی حکمتیں ہیں: 1۔ ان میں سے ایک حکمت تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کپڑوں اور بالوں کو زمین پر لگنے سے بچانے کے لیے انھیں سمیٹتا اور باندھتا ہے تو وہ متکبر شخص کے مشابہ ہو جاتا ہے۔[2] 2۔ دوسری حکمت،جو خصوصاً سر کے بالوں کو جمع کر کے پیچھے کی جانب انھیں گرہ لگانے یعنی عورتوں کی طرح جوڑا سا بنانے سے تعلق رکھتی ہے،یہ ہے کہ نماز کی حالت میں بالوں کے ایسے مجموعے میں شیطان بیٹھ جاتا ہے۔جیسا کہ سنن ابو داود و ترمذی اور ابن ماجہ میں جید سند سے مروی ہے کہ حضرت ابو رافع نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو اِس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ انھوں نے اپنے بالوں کو گدی پر(عورتوں کے جوڑے کی طرح)باندھ رکھا تھا،انھوں نے ان کے بال کھول دیے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے باندھے ہوئے بالوں کے بارے میں سنا ہے: ((ذٰلِکَ مَقْعَدُ(کِفْلُ)الشَّیْطَانِ))[3] ’’یہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔‘‘ اسی معنی و مفہوم کی ایک حدیث سنن ابن ماجہ میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ سے بھی صحیح سند سے
Flag Counter