Maktaba Wahhabi

534 - 738
’’العبارۃ مُقدّمۃ علی الإشارۃ‘‘[1] اس اشارے والی نفی کے برعکس دوسری حدیثِ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ میں صریح عبارت میں اس جلسے کا ذکر آیا ہے۔لہٰذا ان ہر دو اعتبارات سے اثبات ہی مقدم ہے۔پھر اس جلسہ کے لیے الگ کوئی تکبیر نہیں،کیونکہ یہ خفیف اور لمحہ بھر کا جلسہ ہے۔اس میں کوئی دُعا ہے نہ ذکر،یہ تو اٹھنے کے انداز کا ایک حصہ ہے۔[2] اس لیے اس میں کوئی ذکر بھی ثابت نہیں۔غرض اس حدیث سے بھی جلسۂ استراحت کی نفی نہیں ہوتی۔اگر نفی مان ہی لی جائے تو دوسری مثبت حدیث مقدم ہوگی،جیسا کہ اصول ذکر کیا گیا ہے۔ بعض آثار: جلسۂ استراحت کی نفی یا عدم مشروعیت پر بعض آثارِ صحابہ و تابعین سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔مثلاً: 1۔ مصنف ابن ابی شیبہ میں نعمان بن ابی عیاش رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’اَدْرَکْتُ غَیْرَ وَاحِدٍ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَکَانَ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ السَّجْدَۃِ فِیْ اَوَّلِ رَکْعَۃٍ وَالثَّالِثَۃِ،قَامَ کَمَا ہُوَ وَلَمْ یَجْلِسْ‘‘[3] ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کو پایا ہے کہ جب وہ پہلی اور تیسری رکعت کے سجدوں سے فارغ ہوتے تو بیٹھے بغیر سیدھے کھڑے ہی ہو جاتے تھے۔‘‘ اس کی سند کا ایک راوی محمد بن عجلان مدلس ہے اور اس نے یہ حدیث ’’عن‘‘ سے بیان کی ہے،جو اگر مدلس سے ہو تو وہ ضعیف ہوتی ہے۔ہاں اگر کسی نے ’’تحدیث‘‘ کی صراحت کی ہو تو دوسری بات ہے جو یہاں نہیں۔پھر یہ راوی ’’سَيِّ ئُ الحِفظ‘‘(خراب حافظے والا)بھی ہے۔علاوہ ازیں محمد بن عجلان سے بیان کرنے والا راوی ابوخالد الاحمر ہے اور وہ بھی ’’سَيِّ ئُ الحِفظ‘‘ ہے۔[4] لہٰذا یہ نا قابل اعتماد اثر ہے۔
Flag Counter