Maktaba Wahhabi

536 - 738
ایسے ہی بعض دوسرے آثار بھی ہیں،جنھیں مصنف ابنِ ابی شیبہ(1/ 431 وما بعد)میں دیکھا جاسکتا ہے،جن پر الگ الگ تبصرہ کیا جائے تو بات طویل ہو جائے گی۔مختصر یہ کہ اگر آثار کا انبار بھی لگا دیا جائے تو ’’سنتِ رسول‘‘ کا اتباع ہی اولیٰ ہے۔ بعض غلط فہمیاں: یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسۂ استراحت حاجت و ضرورت کی وجہ سے کیا تھا،عبادت کی نظر سے نہیں تو اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر اُن دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متفقہ بیان کو کیا حیثیت دی جائے گی،جنھوں نے حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ سے طریقۂ نماز سن کر بیک آواز کہا تھا: ((صَدَقْتَ ہٰکَذَا کَانَ یُصَلِّیْ))[1] ’’تم سچے ہو،نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھا کرتے تھے۔‘‘ اگر انھیں یہ علم ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جلسۂ استراحت کسی علت و مجبوری کے تحت کیا ہے تو پھر اُن کا اُسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا حصہ ماننے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔یہ بات بعید از قیاس ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمل کسی مجبوری کے تحت کیا ہو اور صحابہ کی ایک جماعت اسے عمومی کیفیت کے طور پر مان لے۔جب اُن سب نے اسے مانا کہ یہ نماز نبوی کا حصہ ہے تو آج ہمیں ماننے میں کیا امر مانع ہے؟[2] بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موٹاپے اور کبر سنی کی بنا پر جلسہ استراحت کیا تھا،جبکہ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کے بہ قول یہ تاویل بھی بلا دلیل ہے۔[3] فقہ حنفی کی معروف کتاب ’’البحر الرائق‘‘ کے مصنف نے بھی یہی بات کہی ہے۔[4] کیونکہ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ حدیث((صَلُّوْا کَمَا رَاَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ))[5] کے راوی ہیں اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جو جو صفات بیان کی ہیں،وہ سب اس حدیث کے حکم میں داخل اور مشروع و ثابت ہیں۔[6] لہٰذا ان کج بحثیوں میں پڑنے کے بجائے
Flag Counter