Maktaba Wahhabi

539 - 738
ہونے لگتے تو اس طرح دونوں ہاتھوں کو بند کر کے ان کی مُٹھیوں کے بل اٹھتے تھے جس طرح آٹا گوندھنے والا مُٹھیاں بناتا ہے۔‘‘ 4۔ اس موضوع کی ایک حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے،لیکن اسے ابن الصلاح اور نووی نے غیر صحیح،غیر معروف،ناقابل حجت،ضعیف و باطل اور بے اصل جیسے تنقیدی الفاظ سے نوازا ہے،جس کی تفصیل ’’التلخیص الحبیر‘‘(1/ 1/ 260)میں دیکھی جا سکتی ہے۔یہ مسئلہ چونکہ پہلی حدیثوں ہی سے ثابت ہے،اس لیے اس کا وجود اور عدم وجود برابر ہے۔امام غزالی رحمہ اللہ سے ’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں امام نووی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ یہ لفظ ’’عاجن‘‘ نہیں،بلکہ ’’عاجز‘‘ ہے۔اگر اس موضوع کی حدیث کو صحیح مان بھی لیا جائے،تب بھی آٹا گوندھنے کی طرح مُٹھیاں بند کر کے نہیں بلکہ عمر رسیدہ بوڑھے کے اپنی ہتھیلیوں پر اعتماد کرتے ہوئے اٹھنے کی طرح اٹھنا مراد ہوگا۔امام ابن الصلاح نے ’’عاجن‘‘ کا معنی بھی ’’عمر رسیدہ‘‘(بوڑھا)کیا ہے۔[1] لیکن معروف معنی وہی ہے جو ہم نے ذکر کیا ہے،یعنی آٹا گوندھنے کی طرح مُٹھیاں بند کر کے ان کے بل اٹھنا اور صحیح احادیث سے یہ فعل ثابت بھی ہے۔ان احادیث کو سامنے رکھا جائے تو ان فتاویٰ کی حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے جن میں کہہ دیا گیا ہے کہ ’’مٹھی بند کر کے ان کے سہارے اٹھنے کا(فعل)کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے نہ یہ تعامل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے،ہاتھ کھلے ہوئے ہوں،ان پر ہی سہارا دے کر کھڑا ہونا چاہیے۔‘‘ یہ کراچی سے شائع ہونے والے ایک دینی رسالہ پندرہ روزہ ’’صحیفہ اہلحدیث‘‘(جلد 67،شمارہ 13،بابت 3 مارچ 1987ء)میں شائع شدہ فتوے کے الفاظ ہیں جن میں مفتی صاحب(مولانا عبدالقہار)نے مُٹھیاں بند کر کے ان کے بل اٹھنے کے بارے میں کسی صحیح حدیث کے وجود ہی سے انکار کیا ہے،جبکہ صالح اور صحیح سند والی احادیث و آثار ہم نے ذکر کر دیے ہیں،جن کی روشنی میں اس فتوے میں پایا جانے والا سقم کھل کر سامنے آجاتا ہے۔والعصمۃ للّٰہ وَحْدَہٗ ثم لنبیّہِ بعدَہٗ۔ ہاتھ نہ ٹیکنے والی احادیث اور ان کی استنادی حیثیت: یہ تو زمین پر ہاتھوں کو ٹیک کر ان کے سہارے اٹھنے کی تفصیل ہے،جبکہ بعض روایات سے پتا
Flag Counter