Maktaba Wahhabi

550 - 738
عَلٰی اِصْبَعِہِ الْوُسْطٰی۔۔۔الخ))[1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دُعا کے لیے بیٹھتے تو دایاں ہاتھ دائیں ران پر اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے اور انگشت شہادت سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیان والی انگلی پر رکھتے تھے۔‘‘ ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نمازی چاہے تو بوقت قعدہ اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھ لے اور چاہے تو گھٹنوں سے تھوڑا پیچھے رانوں پر رکھ لے،دونوں میں اسے اختیار ہے اور دونوں طرح ہی صحیح ہے۔اس قعدے کے وقت کہنیاں اور کلائیاں پہلوؤں کے ساتھ ہی لگی رہیں اور رانوں پر ہی رکھی رہیں تو کوئی حرج نہیں۔سجدوں کی طرح یہ شرط نہیں کہ اپنی کہنیوں کو پہلوؤں سے الگ تھلگ ہٹاکر رکھا جائے،بلکہ ابو داود و نسائی اور مسند احمد میں صحیح سند سے مروی ہے: ((کَانَ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَضَعُ حَدَّ مِرْفَقِہِ الْاَیْمَنِ عَلٰی فَخِذِہِ الْیُمْنٰی))[2] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دائیں کہنی کو دائیں ران پر رکھے رہتے تھے۔‘‘ یہی معاملہ بائیں کہنی اور کلائی یا بازو کا بھی ہے۔علامہ ابن قیم نے بھی زاد المعاد(1/ 242)میں اس طرح بیٹھنے کی واضح صراحت کی ہے۔ قعدے میں دونوں ہاتھوں کی کیفیت: گذشتہ صفحات میں یہ بات تو تفصیل کے ساتھ ذکر کی جا چکی ہے کہ تشہد یا قعدۂ اولیٰ کے وقت اور اگر نماز تین یا چار رکعتوں والی نہیں بلکہ صرف دو ہی رکعتوں والی ہو تو اس کے صرف ایک ہی قعدے کے وقت بیٹھنے کا کون سا انداز مشروع اور کون سا ممنوع ہے اور یہ کہ ہاتھ اور کلائیاں کہاں رکھی جائیں؟ اب یہاں یہ بات بھی واضح کرتے جائیں کہ ہاتھوں کو گھٹنوں یا گھٹنوں سے ملتے ہوئے رانوں کے حصوں پر رکھنے کے انداز کے بارے میں کتب حدیث میں صراحت موجود ہے۔ بائیں ہاتھ کی کیفیت: اس سلسلے میں بائیں ہاتھ کے بارے میں تو سبھی نمازیوں کا انداز صحیح ہوتا ہے کہ ہاتھ کی
Flag Counter