Maktaba Wahhabi

573 - 738
ہے،جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں ایک قوی متابع قرار دیا ہے۔اس میں وہ فرماتے ہیں: ((اِنَّ الصَّحَابَۃَ کَانُوْا یَقُوْلُوْنَ وَالنَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم حَیٌّ:اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ،فَلَمَّا مَاتَ قَالُوْا:اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ))[1] ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب زندہ تھے تو صحابہ((اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ))کہتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو وہ یہ کہنے لگے:((اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ))۔‘‘ سلام کے ان دونوں صیغوں میں بہ ظاہر تو معمولی سا فرق ہے کہ ایک میں خطاب کا صیغہ ہے تو دوسرے میں غائب کا،جبکہ اہل نظر کے لیے اس بہ ظاہر معمولی فرق میں معانی کا ایک جہاں پوشیدہ ہے،جن کی روشنی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ’’حاضر و ناظر‘‘ کا عقیدہ رکھنے والوں کی اس دلیل کی بھی خوب قلعی کھل جاتی ہے،اسی لیے اس کی کچھ اور تفصیل بھی ضروری ہے۔علامہ سبکی نے شرح المنہاج میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ والی حدیث کو صرف ابو عوانہ کے حوالے سے ذکر کرکے لکھا ہے کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد((اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ))کے الفاظ کہنے ثابت ہو جائیں تو یہ اس بات کی دلیل ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد((اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ))کہنا واجب نہیں،بلکہ((اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ))بھی کہا جا سکتا ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ سبکی کا یہ کلام نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ حدیث بلاشک و شبہہ صحیح و ثابت ہے(کیونکہ یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے)۔ ایک وضاحت: آگے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک اشکال کا حل اور ایک اعتراض کو وارد کر کے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’اب رہی وہ حدیث جو سنن سعید بن منصور میں ہے،جس میں ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود کے طریق سے ان کے والد حضرت ابن مسعود رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ تشہد سکھایا تھا اور پھر آگے خطاب کے صیغے والا تشہد ذکر کیا۔اس میں ابو عبیدہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
Flag Counter