Maktaba Wahhabi

576 - 738
’’وہ تشہد میں بیٹھتے تو یہ کہتے:((اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ))(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکات نازل ہوں)۔‘‘ قعدئہ اولیٰ میں درود شریف: قعدئہ اولیٰ میں تشہد یا التحیات کے متعدد صیغے ذکر کیے جا چکے ہیں،جو صحیح احادیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیے ہیں۔ یہیں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ معروف تو یہی ہے کہ تشہد پڑھتے ہی تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں،اس میں درود شریف یا کوئی دعا وغیرہ نہیں پڑھتے،جبکہ بعض احادیث سے قعدئہ اولیٰ میں بھی دعا کر لینے کا پتا چلتا ہے،جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے۔امام ابن حزم رحمہ اللہ اس کے قائل ہیں،البتہ دیگر ائمہ و فقہا قعدئہ اولیٰ میں دعا کے قائل نہیں ہیں۔ اب رہا معاملہ قعدئہ اولیٰ میں درود شریف پڑھنے کا تو اس سلسلے میں معروف تو یہی ہے کہ نہ پڑھا جائے،بلکہ پڑھ لینے پر سجدہ سہو کرنے کا بھی کہا جاتا ہے۔لیکن قعدئہ اولیٰ میں بھی درود شریف پڑھنا چاہیے یا یہ کہ یہ بھی جائز ہے اور سجدہ سہو لازم ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔دونوں طرف ہی دلائل بھی موجود ہیں۔ تحقیقاتِ جدیدہ اور ایک اصولی قاعدہ: یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ مختلف وسائل و ذرائع کا انسان کی تحقیق پر اثر پڑتا ہے اور شریعت نے بھی انسان کو اختیار دیا ہے کہ از روے دلیل صحیح تر بات کو زیر عمل لایا جائے،وہ چاہے جب بھی ثابت ہو جائے۔صحیح تر کے ثابت ہو جانے کے بعد مرجوح کو ترک کر دینا ہی اہلِ تحقیق کی شان ہے۔یہ بات مسئلہ زیر بحث میں بڑی آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ خود علماء حدیث خصوصاً علماء برصغیر پاک و ہند کا بعض مسائلِ نماز میں جو تعامل تھا،موجودہ دَور کے بعض علما اور خصوصاً عرب علما کی تحقیق اُن سے مختلف ہے اور علمی میدان میں ایسا ہونا فطری عمل ہے۔ایسے مسائل میں سے ہی ایک ’’قعدئہ اولیٰ میں درود شریف‘‘ بھی ہے۔جبکہ دورِ حاضر تک متعدد کتب حدیث کے شائع ہو جانے اور بعض اہل علم کے فن حدیث میں غیر معمولی تبحر حاصل کر لینے سے بعض مسائل کی قدیمی شکل میں فرق متحقق ہوا ہے۔
Flag Counter