Maktaba Wahhabi

579 - 738
مرفوع احادیث کے مقابلے میں آثار حجت نہیں ہوتے۔امام شافعی نے کتابُ الام(1/ 121)میں اس حدیث کو ذکر کر کے لکھا ہے کہ قعدئہ اولیٰ میں صرف تشہد اور درود شریف پڑھا جائے اور دعائیں وغیرہ کر کے اس قعدے کو زیادہ لمبا نہ کیا جائے۔اسی سے ملتی جلتی بات امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی کہی ہے۔[1] تیسری دلیل: مسندابو یعلی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: ((اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ لَا یَزِیْدُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ عَلَی التَّشَہُّدِ))[2] ’’نبیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد تشہد سے زیادہ کچھ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ جواب: یہ روایت ضعیف ہے،کیونکہ اس کی سند میں انقطاع ہے،جس کی تفصیل ہم نے اپنی مستقل کتاب ’’درود شریف‘‘ میں ذکر کر دی ہے۔[3] غرض کہ قعدئہ اولیٰ میں درود شریف کی ممانعت کا پتا دینے والی کل تین احادیث میں سے دو تو صحیح ہی نہیں اور جو ایک صحیح یا کم از کم حسن درجے کی ہے،اس سے اس مسئلے پر کئی وجوہات کی بنا پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔لہٰذا ممانعت کی کوئی خاص وجہ نہ ہوئی اور نہ قعدئہ اولیٰ میں درود شریف پڑھنے والے کے لیے سجدئہ سہو کی کوئی ضرورت رہی۔ قائلینِ درود شریف کے دلائل: امام شافعی رحمہ اللہ اور بعض دیگر ائمہ و فقہا قعدئہ اولیٰ میں درود شریف پڑھنے کے قائل ہیں۔دورِ حاضر کے معروف محدث علامہ محمد ناصر الدین البانی نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔سید محب اللہ شاہ راشدی اور معروف محقق و مفسر حافظ صلاح الدین یوسف(صاحب تفسیر احسن البیان)نے بھی یہی رائے اختیار کی ہے۔ان سب کا استدلال بعض قرآنی آیات اور متعدد احادیث سے ہے۔
Flag Counter