Maktaba Wahhabi

593 - 738
آخری رکعتوں میں قراء ت کے قائل تھے۔چنانچہ صنابحی رحمہ اللہ نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہم نے فرمایا: ’’صَلَّیْتُ خَلْفَ اَبِیْ بَکْرٍ الصِّدِّیْقِ الْمَغْرِبَ فَدَنَوْتُ مِنْہُ حَتَّی اِنَّ ثِیَابِیْ تَمُسُّ ثِیَابَہٗ،فَقَرَأَ فِیْ الرَّکْعَۃِ الْاَخِیْرَۃِ بِاُمِّ الْکِتَابِ وَہَذِہٖ الآیَۃِ:﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا﴾‘‘[1] ’’میں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ کے پیچھے نمازِ مغرب پڑھی۔میں ان کے اتنا قریب ہو گیا کہ میرا کپڑا ان کے کپڑے کو لگ رہا تھا۔انھوں نے آخری رکعت میں سورت فاتحہ کے علاوہ یہ آیت بھی پڑھی جس میں ہے:{رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا۔۔۔﴾یہ آیت چونکہ ایک قرآنی دعا بھی ہے،اس لیے حنابلہ کے یہاں کہا جاتا ہے کہ اگر وہ قراء ت دعا کی نیت سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اَحناف و مالکیہ: اَحناف و مالکیہ صرف سورت فاتحہ پر ہی اکتفا کرنے کے قائل ہیں۔بعض فقہاے احناف نے تو آخری رکعتوں میں قراء ت پر سجدۂ سہو ضروری قرار دیا ہے۔حضرت عمر،ابن مسعود،ابو درداء،ابوہریرہ،جابر اور اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے بھی اسی کی روایات ملتی ہیں کہ صرف سورت فاتحہ پر ہی اکتفا کیا جائے۔[2] گذشتہ اوراق میں ہم متعدد احادیث نبویہ اور صحابہ کرام،کبار ائمہ مجتہدین اور فقہا و محدثین کے آثار و اقوال ذکر کر چکے ہیں،جن سے پتا چلتا ہے کہ فرضوں کی تیسری اور چوتھی رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کے علاوہ کچھ قراء ت کر لینا بھی سنت ہے،اگرچہ یہ کبھی کرنے اور کبھی نہ کرنے کے انداز کی ہے،اور کم از کم اس کا حکم مشروعیت کا ہے،لہٰذا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ اگر کوئی کبھی آخری رکعتوں میں قراء ت کر لے تو اسے سجدہ سہو کرنا چاہیے۔
Flag Counter