Maktaba Wahhabi

61 - 738
تیری نماز بے سرور تیرا امام بے حضور ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر! بعض مسائل میں تو فقہی اختلافات کی آڑ لی جا سکتی ہے،مگر جو مسائل تمام ائمہ مجتہدین اور فقہا و محدثین کے مابین متفق علیہ ہیں،ان کا بھی حلیہ بگاڑ دیا جاتا ہے۔کسی وقت آپ مسنون نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے قواعد و ضوابط کو پیش نظر رکھ کر نمازیوں کا سروے کر کے دیکھ لیں،اکیلے نمازی بھی اس سروے میں شامل کر لیں اور باجماعت بھی،طہارت اور تکبیرہ اولیٰ سے لے کر صفوں کی درستی اور سلام پھیرنے تک آپ کو نمازِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور نمازِ مسلم میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا اور پھر چار و ناچار آپ کو بھی علّامہ اقبال کے ان عبقری خیالات کی داد دینا پڑے گی جنھیں وہ یوں کہہ گئے ہیں: ؎ مسلمانوں میں خوں باقی نہیں ہے محبت کا جنوں باقی نہیں ہے صفیں کج،دل پریشاں،سجدہ بے ذوق کہ جذبِ اندروں باقی نہیں ہے! اسلام کے نظامِ عبادات میں سے نماز ایک ایسا عمل ہے جس کو ادا کرنے سے مسلمانوں کو اپنے خالق و مالک سے مناجات کا موقع اور بارگاہِ لم یزل میں حاضری کا شرف حاصل ہوتا ہے۔قیامِ نماز،رکوع و سجود،قومہ و جلسہ اور قعدہ وغیرہ اپنے ربّ کے ساتھ سرگوشیوں کے مختلف انداز اور مکالمے ہیں۔کبھی بندہ دست بستہ ہو کر اظہارِ مدعا کرتا ہے تو کبھی عبودیت جھک کر اقرارِ عجز کرتی ہے۔پھر انسان سرو قد ہو کر ربوبیتِ الٰہی کی حمد و ستایش کا کلمہ پڑھتا ہے اور پھر اس کی جبینِ نیاز خاک و دھول پر سجدہ ریز ہو کر ربِّ اعلیٰ کا قرب چاہنے لگتی ہے۔پھر غلام اپنے آقا و مالک کے سامنے دو زانو بیٹھ کر تحیاتِ سرمدی کی پاکیزہ التجاؤں سے اس کی رضا و خوشنودی کی تمنا کرتا ہے کہ شانِ کریمی اپنے در پر آئے سوالی کا دامن بھر دے اور اپنے فضل و رحمت کے عطایا و ہدایا کے ساتھ رخصت کردے۔[1] نماز کی شرائط و واجبات پر ایک طائرانہ نظر: یہ بات کسے معلوم نہیں کہ کسی بڑے آدمی سے ملاقات مقصود ہو تو تہذیب و شائستگی،ادب و احترام،
Flag Counter