Maktaba Wahhabi

611 - 738
تب بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دو طرح کی احادیث مروی ہیں،افتراش والی بھی اور تورک والی بھی۔ جب ان دونوں طرح کی حدیثوں میں تعارض ہے تو ان کے مابین جمع و تطبیق اور موافقت و مطابقت پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ موطا کی تورک والی حدیث کو تشہد اخیر پر اور اس دوسری اور نسائی والی کو تشہد اوّل پر محمول کیا جائے،تاکہ ان کے مابین واقع تعارض ختم ہو۔معلوم ہوا کہ پہلے اور آخری ہر تشہد میں تورک کسی صحیح غیر معارض دلیل سے ثابت نہیں ہے۔دو طرح کی حدیثیں ہیں اور ان میں الگ الگ انداز مذکور ہے۔لہٰذا ایک قسم کو پہلے انداز پر اور دوسری قسم کو دوسرے انداز پر محمول کرنا ضروری ہے۔ 2 حنابلہ کی دلیل: ان کا استدلال ایک تو حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ والی حدیث کے ان الفاظ سے ہے: ((وَاِذَا جَلَسَ فِی الرَّکْعَۃِ الآخِرَۃِ۔۔۔))[1] ’’اور جب آخری رکعت کے لیے قعدہ کیا۔۔۔۔‘‘ ایک اور روایت میں ہے: ((فَاِذا جَلَسَ فِی الرَّکْعَۃِ الرَّابِعَۃِ۔۔۔))’’پھر جب چوتھی رکعت کے بعد قعدہ کیا۔۔۔۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ حضرت ابو حمید رضی اللہ نے پہلے قعدے کا انداز بتانے کے بعد اس طرح کہا،جس سے پتا چلتاہے کہ یہ صرف دو تشہدوں والی نماز کے تشہد ثانی ہی میں ہے،نہ کہ صرف دو رکعتوں والی نماز کے تشہد اخیر میں۔ حکمتِ تورّک: حدیث کے ان الفاظ کے علاوہ حنابلہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دو تشہدوں والی نماز کے پہلے اور دوسرے تشہد میں افتراش و تورک کے دو الگ الگ انداز اس لیے ہیں کہ باہر سے آنے والے کو نمازیوں کے انداز کو دیکھ کر معلوم ہو سکے کہ یہ پہلا قعدہ ہے یا دوسرا۔جبکہ ایک ہی قعدہ والی نماز میں اس کی ضرورت نہیں،لہٰذا اس میں تورک بھی نہیں ہے۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس رائے پر صاد کیا ہے۔[2]
Flag Counter