Maktaba Wahhabi

619 - 738
’’لہٰذا اس مجمل کو اس مفصل پر محمول کرنا ضروری ہو گیا۔‘‘ 3۔ افتراش کی افضلیت پر شرح السنہ،سنن نسائی،دارقطنی،ابن ابی شیبہ اور موطا امام مالک میں مروی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: ((مِنْ سُنَّۃِ الصَّلَاۃِ أنْ تَنْصِبَ الْقَدَمَ الْیُمْنٰی وَاسْتِقْبالُہٗ بِأصابِعِہَا الْقِبْلَۃَ،وَالْجُلُوْسُ عَلَی الیُسْرٰی))[1] ’’نماز کی سنت یہ ہے کہ دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور اس کی انگلیوں کو قبلہ رو رکھیں اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اُس پر بیٹھیں۔‘‘ جواب: یہ حدیث بھی اس مسئلے میں دلیل نہیں بن سکتی،کیونکہ ہم مالکیہ کی دلیل اور اس کے جواب کے ضمن میں بھی ذکر کر آئے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے ایک دوسری حدیث موطا امام مالک میں بھی مروی ہے جس میں تورّک کا ذکر یوں آیا ہے کہ قاسم بن محمد رحمہ اللہ نے لوگوں کو نماز پڑھتے وقت قعدے کا طریقہ دکھایا: ’’فنَصَب رِجْلَہ الیُمنٰی،وَثَنٰی رِجلَہُ الیُسرٰی وَجَلَسَ عَلٰی وَرِکِہِ الْأَیْسَرِ وَلَمْ یَجْلِسْ علٰی قَدَمِہٖ‘‘[2] ’’انھوں نے دایاں پاؤں کھڑا کیا اور بایاں پاؤں بچھایا اور بائیں سرین پر بیٹھے،بائیں قدم پر نہیں بیٹھے۔‘‘ گویا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ان دو طرح کی احادیث میں باہم اختلاف و تعارض پایا جاتا ہے۔لہٰذا اسے ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نسائی والی حدیث کو قعدئہ اولیٰ پر اور موطا والی حدیث کو قعدئہ ثانیہ پر محمول کیا جائے۔لہٰذا دونوں قعدوں ہی میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنے کی افضلیت اس سے بھی ثابت نہ ہوئی،کیونکہ یہ اور اس موضوع کی دوسری احادیث اپنے موضوع میں مبہم ہیں،جبکہ حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ والی حدیث مفصل ہے۔فَلْیُحْمَلُ الْمُبْہَمُ عَلٰی الْمُفَصَّلِ۔
Flag Counter