Maktaba Wahhabi

62 - 738
آداب و قواعد اور پابندیِ وقت کا خاص التزام کیا جاتا ہے،ایسے ہی جب نماز خالقِ کائنات،مالکِ ارض و سما کی ملاقات کا ذریعہ اور اس کے دربارِ عالیہ کی حاضری ہے تو کیا اس کے کوئی قواعد و ضوابط اور شرائط و واجبات نہیں ہوں گے؟کیوں نہیں!نماز کے بھی کچھ قواعد اور اصول ہیں جن کا التزام نماز کی قبولیت کے لیے شرط ہے۔بعض اموراس کے واجبات میں سے ہیں۔مثلاً دربارِ الٰہی کی حاضری یا نماز کے لیے اوقاتِ نمازِ پنج گانہ کا دخول اور حدثِ اکبر و اصغر سے طہارت جیسے امور ہیں،قبل از وقت اور حدث سے طہارت یعنی غسل یا وضو میں سے جو بھی واجب ہو،اُس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔[1] ایسے ہی بدن اور کپڑوں کی طہارت اور جاے نماز کی طہارت کو بھی فقہا نے صحتِ نماز کے لیے شرط قرار دیا ہے۔جبکہ عظیم محدث و مجتہد امام شوکانی نے متعلقہ احادیث پر بحث و مناقشہ کرنے اور ان کا جائزہ لینے کے بعد لکھا ہے کہ کپڑوں کی طہارت شرط نہیں بلکہ واجب ہے اور جمہور علما کا یہی مسلک ہے۔ ستر پوشی: نماز کا آغاز کرنے سے قبل ’’سترپوشی‘‘ بھی واجب ہے کہ نماز کے شایانِ شان لباس پہنا ہو،جو مقاماتِ ستر کی دونوں اقسام یعنی ستر مغلظ و مخفف کو ساتر ہو اور موٹا بھی۔تنگ و چست نہ ہو کہ اعضاے جسم کی چغلی کھائے،کیونکہ ایسا لباس اس دربارِ عالی کی حاضری کے لائق نہیں ہو سکتا۔بعض لوگ سلیپنگ سوٹ یا سپورٹس ڈریس ہی میں مسجد میں چلے آتے ہیں جبکہ یہ اگر سراسر ناجائز نہیں تو کم از کم مسجد کے شایانِ شان بھی نہیں ہے۔ دورانِ نماز عورت کا سارا جسم ہی ستر ہے،سوائے چہرے اور ہاتھوں کے،اور اگر غیر محرم نہ دیکھ رہے ہوں تو انھیں کھلا رکھ سکتی ہے،ورنہ نہیں۔عورت کی نماز ننگے سر ہر گز ہوتی ہی نہیں،چاہے غیر محرم دیکھ رہے ہوں یا کسی کمرے میں بند وہ اکیلی ہی کیوں نہ ہو،کیونکہ یہ آدابِ نظر میں سے نہیں بلکہ آدابِ نماز میں سے ہے کہ عورت کا سارا سر اور اس کے بال چھپے ہوئے ہوں۔سر کو ڈھانپنے کا یہ حکم صرف عورتوں کے لیے ہے،مَردوں کے لیے نہیں۔مردوں کی نماز ننگے سر بھی ہو جاتی ہے،لیکن اسے
Flag Counter