Maktaba Wahhabi

645 - 738
یعنی اٹھاتے اور گراتے بھی تھے،صرف کھڑی ہی نہیں کیے رکھتے تھے۔چنانچہ وہ بیان فرماتے ہیں: ((ثُمَّ رَفَعَ اِصْبَعَہٗ فَرَأیتُہٗ یُحَرِّکُہَا یَدْعُوْ بِہَا))[1] ’’پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی اٹھائی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا مانگ رہے تھے اور انگلی ہلا رہے تھے۔‘‘ اس حدیث کے تحت علامہ البانی نے تحقیقِ مشکوٰۃ میں لکھا ہے: ’’یُفِیْدُ اِسْتِمْرَارَ التَّحْرِیْکِ وَعَلَیْہِ الْمَالِکِیَّۃُ وَہُوَ الْحَقُّ‘‘[2] ’’یہ حدیث اس بات کا پتا دے رہی ہے کہ انگلی کو مسلسل ہلاتے رہنا چاہیے۔مالکیہ کا یہی مسلک ہے اور یہی حق ہے۔‘‘ علامہ رحمانی نے بھی استمرارِ تحریک پر صاد کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’فَالرَّاجِحُ عِنْدَنَا اَنْ یَّعْقِدَ مِنْ اَوَّلِ الْقُعُوْدِ مُشِیرًا بِالْمُسَبِّحَۃِ مُسْتَمِرَّا عَلـٰی ذٰلِکَ اِلٰی اَنْ یُّسَلِّمَ‘‘[3] ’’ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ تشہد کے لیے بیٹھتے ہی مٹھی کو بند کر کے انگشتِ شہادت سے اشارہ شروع کر دیا جائے اور سلام پھیرنے تک اسے جاری رکھا جائے۔‘‘ ان تینوں حدیثوں کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قعدے کے آخر تک یعنی سلام پھیرنے تک انگلی سے اشارہ کرتے رہتے تھے اور اشارے کی کیفیت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حرکت دیتے یعنی اٹھاتے اور گراتے تھے۔ وجہ استدلال: ان احادیث سے یہ استدلال اس طرح کیا جاتا ہے کہ ان میں انگلی کو اٹھانے اور اس سے اشارہ کرنے کے ساتھ ہی دعا کرنے کا بھی ذکر آیاہے۔دعا تشہد و درود شریف کے بعد اور سلام پھیرنے سے پہلے کی جاتی ہے،لہٰذا یہ اشارہ بھی اس وقت تک جاری رہے گا۔اشارے سے مراد محض
Flag Counter