Maktaba Wahhabi

651 - 738
’’إِنَّہٗ لَا یُخَالِفُ مَا قَبْلَہٗ لِأَنَّہٗ تَرَکَ لِبَیَانِ اَنَّہٗ لَیْسَ بِوَاجِبٍ‘‘[1] ’’یہ اپنے ماقبل کے مخالف نہیں،کیونکہ انھوں نے یہ بات واضح کرنے کے لیے حرکت کو ترک کیا کہ یہ حرکت دینا واجب نہیں ہے۔‘‘ حاصل کلام: اشکالات کی تردید اور ان پانچ جوابات پر مشتمل تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ اشارے کو ’’لا إلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کے ساتھ خاص کرنے والی کوئی صحیح حدیث نہیں ہے،لہٰذا احادیث کے عموم کے پیش نظر اشارہ آغازِ تشہد ہی سے شروع کر دینا چاہیے اور((یُحرّکہا))کے لفظ والی صحیح حدیث کے پیش نظر سلام پھیرنے تک انگشتِ شہادت کو حرکت دیتے یعنی اٹھاتے اور گراتے رہنا چاہیے۔اصولِ ترجیح کی رو سے یہی صحیح تر بات ہے،کیونکہ کسی مسئلہ میں جب ائمہ و فقہا کے اقوال مختلف ہوں تو ترجیح اس قول کو دی جاتی ہے جو اقرب الی النصوص ہو نہ کہ اسے جو اقرب الی العقل والرأی ہو۔اس میں شک نہیں کہ غیر منصوص مسائل میں اجتہاد تو باعثِ اجر و ثواب ہے اور نصوص سے مسائل کے استنباط میں بھی نتائج مختلف ہو جاتے ہیں،جیسا کہ اس اشارہ والے مسئلے میں ہوا ہے،ایسی صورت میں جو بات راجح ہو اس پر عمل کرنا چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ ایسے مسائل میں کسی ایک صورت کو اپنانے پر اصرار کرنا اور اسی مسئلے کے دوسرے رخ کو باطل قرار دینا علمی تحقیق کے خلاف ہے،کیونکہ ایسا صرف منصوص مسائل میں ہونا چاہیے۔ چلتے چلتے: چلتے چلتے ایک مرتبہ پھر بتاتے جائیں کہ مختلف وسائل و ذرائع کا انسان کی تحقیق پر اثر پڑتا ہے اور شریعت نے بھی انسان کو اختیار دیا ہے کہ از روے دلیل صحیح تر بات کو زیر عمل لایا جائے،وہ چاہے جب بھی ثابت ہو جائے۔صحیح تر کے ثابت ہو جانے کے بعد مرجوح کو ترک کر دینا ہی اہل تحقیق کی شان ہے۔یہ بات مسئلہ زیر بحث میں بڑی آسانی کے ساتھ سمجھی جا سکتی ہے کہ خود علماء حدیث خصوصاً علماء برصغیر پاک وہند کا بعض مسائل نماز میں جو تعامل تھا،موجودہ دور کے بعض علما اور خصوصاً عرب علما کی تحقیق ان سے مختلف ہے اور علمی میدان میں ایسا ہونا فطری عمل ہے۔
Flag Counter