Maktaba Wahhabi

686 - 738
یہ تو ہوا عام نمازوں کے تعلق سے،جبکہ نماز جنازہ میں بھی ایک سلام کے قائلین کے بارے میں امام حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے کہ صحیح سند کے ساتھ حضرت علی بن ابی طالب،عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن عباس،جابر بن عبداللہ،عبداللہ بن ابی اوفیٰ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے کہ وہ ایک ہی سلام پر اکتفا کرتے تھے۔علامہ ذہبی نے ان کی اس بات پر موافقت کی ہے اور امام بیہقی نے ان آثار میں سے اکثر کو باسند بیان کیا ہے۔ان میں حضرت واثلہ بن اسقع اور ابو امامہ بن سہل کا تذکرہ اور بعض دیگر صحابہ کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔[1] اگر ان کبار صحابہ کے باسند آثار کو بھی نقل کیا جائے تو پہلے ذکر کی گئی احادیث و آثار سمیت ان سب کی مجموعی تعداد سولہ(16)ہو جائے گی،جن میں صرف ایک سلام کا ذکر آیا ہے۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے تو دو سلاموں والے مسلک ہی کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ ان کے پاس احادیث کثرت سے اور صحیح و حسن ہیں جبکہ ایک سلام والوں کے پاس احادیث کم اور ضعیف ہیں۔اگر ان کو قابل استدلال مان بھی لیا جائے تو وہ دو سلاموں والی احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔[2] امام شوکانی رحمہ اللہ کا یہ کلام نقل کر کے علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفۃ الاحوذی میں اس پر سکوت اختیار کیا ہے،جس سے ان کی موافقت مترشح ہوتی ہے۔[3] جبکہ حقیقتِ حال ہم بالتفصیل بیان کر آئے ہیں کہ اکثر عمل دو سلاموں والا ہی ہے جو جمہور اہل علم کا مسلک بھی ہے،لیکن ایک سلام والی احادیث و آثار بھی صحیح ہیں اور قابل حجت بھی۔لہٰذا کبھی کبھار اس پر بھی عمل کر لینا چاہیے۔یوں ان ہر دو طرح کی احادیث میں باہم کوئی تعارض بھی نہیں رہتا ہے۔ دو سلاموں کے قائلین: عام نمازوں کی طرح ہی نماز جنازہ کے معاملے میں بھی دونوں طرح کی احادیث پر عمل کیا جاسکتا ہے،اگرچہ مبسوط سرخسی(2/ 65)کے مطابق احناف کا،الانصاف(2/ 525)کے مطابق ایک روایت میں امام احمدکا،اور شرح ابن قاسم الغزی(1/ 431۔باجوری)کے مطابق شافعیہ کا مسلک
Flag Counter