Maktaba Wahhabi

690 - 738
سلام کو لیٹ نہ کرے۔اس بات پر یہ چیز بھی دلالت کرتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے ترجمہ یا عنوان کے ضمن ہی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک اثر بھی ذکر کیا ہے جس میں مذکور ہے: ((وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَسْتَحِبُّ إِذَا سَلَّمَ الْاِمَامُ اَنْ یُّسَلِّمَ مَنْ خَلْفَہٗ))[1] ’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اس بات کو مستحب سمجھتے تھے کہ جب امام سلام پھیر لے تو اس کے بعد مقتدی سلام پھیریں۔‘‘ اس معنی کا ایک اثر مصنف ابن ابی شیبہ میں موصولاً بھی مروی ہے۔ غرض کہ سلام پھیرنے کے دونوں ہی طریقوں کی گنجایش ہے اور دونوں ہی صحیح بھی ہیں۔جہاں جس صورت پر عمل کرنا ممکن ہو،کیا جا سکتاہے،بلکہ جہاں جو طریقہ مروّج ہو،وہاں وہی اختیار کرنا زیادہ بہتر ہے۔مثلاً برصغیر میں امام کے ساتھ ہی لیکن اس کے پیچھے پیچھے اور یہاں(خلیجی ممالک و سعودی عرب میں)امام کے ساتھ نہیں بلکہ صرف پیچھے یا بعد میں سلام پھیر لیں۔ بہ وقتِ سلام اشارے کی ممانعت: اب چلتے چلتے ایک بات یہ بھی ذکر کرتے جائیں کہ شروع میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب سلام پھیرتے تھے تو ساتھ ہی اپنے ہاتھوں سے بھی اشارہ کرتے تھے۔یعنی جب دائیں طرف ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ‘‘ کہتے تو اپنے ہاتھوں سے دائیں جانب اشارہ بھی کرتے تھے اور جب بائیں جانب منہ پھیر کر سلام کہتے تو ساتھ ہی اپنے ہاتھوں سے بائیں جانب بھی اشارہ کرتے تھے۔انھیں ایسا کرتے دیکھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔چنانچہ صحیح مسلم و ابی عوانہ،سنن ابی داود و سنن نسائی،صحیح ابن خزیمہ،مسند احمد و مسند سراج اور معجم طبرانی کبیر میں حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا شَأْنُکُمْ تُشِیْرُوْنَ بِاَیْدِیْکُمْ کَاَنَّہَا اَذْنَابُ خَیْلٍ شُمْسٍ؟اِذَا سَلَّمَ اَحَدُکُمْ فَلْیَلْتَفِتْ اِلٰی صَاحِبِہٖ وَلَا یُوْمِیْٔ بِیَدِہٖ)) ’’کیا بات ہے کہ تم بدکے ہوئے(سرکش)گھوڑوں کے دم ہلانے کی طرح اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہو۔تم میں سے جب کوئی سلام پھیرے تو اسے چاہیے کہ اپنے ساتھی کی
Flag Counter