Maktaba Wahhabi

696 - 738
پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے۔اس طرح اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھ لی ہوں گی تو(ان دو سجدوں کی وجہ سے)وہ شفع(جفت یا جوڑی)ہو جائیں گی اور اگر اس نے پوری نما ز ہی پڑھی ہو گی تو یہ(دو سجدے)شیطان کی ذلت و رسوائی کا باعث بن جائیں گے۔[1] ایک دوسری حدیث میں شک زائل اور یقین حاصل کرنے کا طریقہ بھی لکھا ہے۔چنانچہ سنن ابو داود،ترمذی،ابن ماجہ،مسند احمد اور سنن بیہقی میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جب تم میں سے کسی شخص کو نماز میں شک ہو جائے کہ اس نے ایک رکعت پڑھی ہے یا دو،تو اسے چاہیے کہ اپنی ایک ہی رکعت سمجھے،اور جب اسے یہ شک ہو جائے کہ اس نے دو رکعتیں پڑھی ہیں یا تین،تو اسے چاہیے کہ اپنی دو ہی رکعتیں سمجھے،اور جب اسے یہ شک ہو جائے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی یا چار تو اسے چاہیے کہ اپنی تین ہی رکعتیں سمجھے،پھر نماز کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کر لے۔[2] ان دونوں حدیثوں کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ تین یا چار،دو یا تین اور دو یا ایک میں شک ہو جائے،مگر اُن دونوں میں سے کوئی ایک پہلو ظن غالب سے راجح ہو تو پھر ظن غالب پر ہی بنیاد رکھے۔اگر کوئی پہلو بھی ظن غالب سے راجح محسوس نہ ہو تو پھر کم پر بنیاد رکھ کر نماز مکمل کرے اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کر لے۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ سجدئہ سہو سلام سے پہلے اور بعد میں دونوں طرح ہی ثابت ہے اور اس بات پر تمام ائمہ و فقہا کا اتفاق ہے۔البتہ افضلیت میں اختلاف ہے۔پھر اسی وجہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ اور ائمہ و فقہا رحمہم اللہ نے سجدئہ سہو کے وقت کے بارے میں مختلف مذاہب اختیار فرمائے ہیں۔ سجدئہ سہو کا موقع و مقام: اس سلسلے میں علامہ عراقی رحمہ اللہ کی شرح الترمذی سے نقل کرتے ہوئے امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں دس اقوال بیان کیے ہیں:
Flag Counter