Maktaba Wahhabi

71 - 738
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف کی طرف رُخ کر کے جو پہلی نماز پڑھی،وہ نمازِ عصر تھی۔‘‘ گویا شہر کے اندر اندر تو نمازِ عصر کے وقت ہی تحویلِ قبلہ کی خبر پہنچ گئی،البتہ اہلِ قبا کو شہر سے کچھ دُور ہونے کی وجہ سے اگلی فجر کے وقت خبر پہنچی لہٰذا اِن دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہ رہا۔والحمد للّٰہ علٰی ذٰلک![1] 1فقہ الحدیث: تحویلِ قبلہ کی مزید تفصیلات کتبِ تفسیر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔استقبالِ قبلہ اور تحویلِ قبلہ کے علاوہ اس واقعے سے متعلق دیگر احادیث سے محدثینِ کرام نے کئی مسائل اخذ کیے ہیں۔ 1۔ امام ابو عوانہ کے مطابق اس حدیث سے خبر واحد کی حجیت کا ثبوت ملتا ہے۔ 2۔ صاحب ارواء الغلیل کے بقول حق تو یہ ہے کہ اس سے یہ حجت بھی لی جائے گی کہ متواتر کو آحاد سے منسوخ مانا جا سکتا ہے۔اس حدیث سے مجد ابن تیمیہ نے منتقی میں خبرِ واحد کی حجیت پر استدلال کیا ہے۔[2] 3۔ خبر واحد کی حجیت کے علاوہ امام بغوی رحمہ اللہ نے شرح السنہ میں اس حدیث سے کتنے ہی دیگر مسائل کا بھی استنباط کیا ہے۔[3] استقبالِ قبلہ کا انداز: یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ وہ نمازی جو مسجدِ حرام میں کعبہ شریف کے عین سامنے ہو اور اُسے دیکھ رہا ہو تو اس کے لیے عین کعبہ شریف کی طرف رُخ کر کے نماز ادا کرنا ضروری ہے۔علامہ ابن رشد نے ’’بدایۃ المجتہد‘‘ میں اس بات پر تمام علماء امت کا اتفاق نقل کیا ہے۔[4] اب رہا وہ شخص جو کعبہ شریف کے سامنے ہو اور نہ اسے دیکھ ہی رہا ہو،بلکہ وہ حدودِ حرم سے
Flag Counter