Maktaba Wahhabi

717 - 738
حضرت عمر فاروق رضی اللہ اور ایک روایت میں حضرت ابن عمر رضی اللہ سے پندرہ دن کی مدت بیان کی گئی ہے(جبکہ دوسری روایت میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بارہ دن کی مدتِ قصر بھی منقول ہے)امام اوزاعی رحمہم اللہ بھی بارہ دن کی طرف گئے ہیں،مگر اس کی کوئی دلیل نہیں،بلکہ یہ محض اجتہاد ہے۔[1] احناف کا مسلک بھی یہی ہے کہ جہاں آدمی پندرہ دن یا ا س سے زیادہ دن ٹھہرنے کا ارادہ کر لے،وہاں وہ پوری نماز پڑھے گا اور اس سے کم کا ارادہ ہو تو قصر کرے گا۔جبکہ حضرت عثمان و انس رضی اللہ اور ایک روایت میں ابن عمر رضی اللہ سے چار روز مدتِ قصر کی روایت ملتی ہے۔امام مالک،شافعی اور احمد رحمہم اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔انھوں نے بعض احادیث سے استدلال کیا ہے جو بہ ظاہر اس بات میں صریح نہیں۔[2] علامہ عبیداللہ رحمانی نے المرعاۃ میں اسی مسلک کو ترجیح دی ہے۔[3] لیکن یہ ترجیح محل نظر ہے۔بعض کبار علما نے لکھا ہے کہ مدتِ قصر کی کوئی حد مقرر نہیں،جب تک سفر میں رہے قصر کر سکتا ہے۔امام شوکانی اور امیر صنعانی نے اس بات کی طرف صرف اشارہ کیا ہے۔علامہ ابن حزم نے اس کے دلائل دیے ہیں اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے بہ ظاہر اسے ہی راجح قرار دیا ہے۔[4] مجبور کے لیے حکم: مذکورہ مدتِ قصر تو اس مسافر کے لیے ہے،جس کا کسی شہر میں یا کسی جگہ پر جا کر ایک مقررہ مدت تک ٹھہرنے کا ارادہ ہو۔اگر کسی جگہ مجبوراً رکا ہوا ہو اور ہر وقت یہ خیال ہو کہ مجبوری زائل ہوتے ہی وطن واپس ہو جائے گا تو ایسی جگہ بلا تعینِ مدت قصر پڑھی جا سکتی ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس سلسلے میں متعدد آثار اور مثالیں موجود ہیں۔چنانچہ مسند احمد،بیہقی،مصنف عبدالرزاق اور سنن اثرم میں صحیح سند سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:ہم غزوات کے سلسلے میں آذربائی جان میں تھے کہ برف باری کی وجہ سے وہاں ہمیں چھے ماہ رکنا پڑا اور اس ساری مدت میں ہم دو رکعتیں(نمازِ قصر)پڑھتے رہے۔[5]
Flag Counter