Maktaba Wahhabi

719 - 738
حضرت موسیٰ بن سلمہ ہذلی رضی اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ میں جب مکہ میں(مسافر کی حیثیت سے)ہوں اور امام کے ساتھ نماز نہ پڑھ سکوں تو تنہا کتنی رکعتیں پڑھوں؟تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ((رَکْعَتَیْنِ،سُنَّۃَ اَبِي الْقَاسِمِ صلی اللّٰه علیہ وسلم))[1] ’’دو رکعتیں،جو ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔‘‘ اس حدیث کا مفہوم واضح ہے کہ امام مقیم کے پیچھے مسافر نماز ادا کرے تو پھر مسافر بھی پوری پڑھے،قصر نہ کرے۔سنن نسائی اور مسند احمد میں تو بڑی صراحت سے مذکور ہے کہ اسی سائل نے پوچھا کہ جب ہم آپ کے ساتھ(مسجد میں،مقیم امام کے پیچھے)نماز پڑھتے ہیں تو چار رکعتیں پڑھتے ہیں اور جب ہم اپنی قیام گاہ میں پڑھتے ہیں تو دو رکعتیں پڑھتے ہیں،اس پر ابن عباس رضی اللہ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔[2] ان احادیث سے مقیم امام کے پیچھے مسافر مقتدی کی نماز کا جواز ثابت ہوا،اور یہ بھی کہ وہ مسافر اس صورت میں نماز مکمل ادا کرے گا۔جمہور ائمہ و فقہا کا یہی مذہب ہے۔امام حسن بصری،ابراہیم نخعی،زہری،قتادہ اور مالک رحمہم اللہ کا کہنا ہے کہ اگر ایک رکعت یا اس سے زیادہ مقیم کی اقتدا میں ملے تو پوری پڑھے اور اگر اس سے کم ملے تو قصر کر سکتا ہے،جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کثیر تابعین اور ائمہ میں سے امام ثوری،اوزاعی،ابو ثور اور حنفیہ و شافعیہ رحمہم اللہ کا مسلک یہ ہے کہ وہ پوری نماز ہی پڑھے گا،چاہے اسے ایک رکعت سے کم نماز ہی مقیم کی اقتدا میں ملے۔[3] لیکن علامہ ابن حزم ہر حالت میں قصر کرنے کے قائل ہیں۔[4] سفر میں سنن و نوافل: وہ سفر جس میں نمازیں قصر کی جاتی ہیں،اس کے دوران میں عام سنّتوں اور نوافل کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کے سلسلے میں عام فہم سی بات تو یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض رکعتوں کی چار کے بجائے دو پڑھنے کی اجازت دے دی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل مبارک
Flag Counter