Maktaba Wahhabi

726 - 738
((کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَجْمَعُ بَیْنَ صَلَاۃِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ فِی السَّفَرِ))[1] ’’نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم دورانِ سفر مغرب و عشا کو جمع کر کے پڑھ لیا کرتے تھے۔‘‘ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ سے مروی ہے: ((کَانَ النَّبِیُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَجْمَعُ بَیْنَ صَلاَۃِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَائِ اِذَا جَدَّ بِہِ السَّیْرُ)) ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں مغرب و عشا جمع کر کے ادا کرتے تھے۔‘‘ جبکہ بخاری و مسلم شریف کی ایک حدیث کے الفاظ ہیں: ((اِذَا اَعْجَلَ بِہِ السَّیْرَ))[2] ’’جب آپ سفر کی جلدی میں ہوتے۔‘‘ مفہوم دونوں کا ایک ہی ہے کہ جب کبھی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر طے کرنے کی جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب و عشا کو جمع کر لیا کرتے تھے۔ اسی طرح صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سفر طے کرنے کی جلدی ہوتی تو مغرب کو موخر کر دیتے،تا کہ مغرب و عشا کو جمع کر کے پڑھیں۔حضرت سالم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خود حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا بھی جلدی کے سفر میں یہی طریقہ تھا۔(اور جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نمازوں کو جمع کر کے پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو)پہلے مغرب کی اقامت ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیتے اور بہت معمولی سے وقفے کے بعد دوسری نمازِ عشا کی اقامت ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتیں پڑھا کر سلام پھیر دیتے اور مغرب و عشا کے مابین یا عشا کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی نماز(سنّت و نفل)نہیں پڑھتے تھے،یہاں تک کہ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے۔[3] منزلِ مقصود پرپہنچ کر جمع کرنا: مذکورہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شاید جمع بین الصلوٰتین صرف اسی وقت جائز ہے جب آدمی سفر میں روا ں دواں ہو،جبکہ موطا امام مالک میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ کی روایت میں
Flag Counter