Maktaba Wahhabi

727 - 738
یہ تصریح بھی موجود ہے کہ مسافر رواں ہو یا کہیں ٹھہر چکا ہو،جمع کر سکتا ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوئہ تبوک کے موقع پر نماز کو موخر کیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قیام گاہ سے نکلے اور ظہر و عصر کو جمع کر کے ادا فرمایا اور دوبارہ اپنی قیام گاہ میں داخل ہو گئے،پھر وہاں سے نکلے اور مغرب و عشا کو جمع کر کے پڑھا۔[1] قیام گاہ میں داخل ہونا اور نکلنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ نمازیں سفر پر رواں دواں ہونے کی حالت میں نہیں،بلکہ ایک جگہ قیام کر چکنے پر جمع کی جا رہی تھیں۔علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ رواں اور ٹھہرے ہوئے مسافر کے جمع کرنے یا نہ کرنے کے مسئلے میں یہ حدیث قاطع التباس اور ہر دو شکلوں میں جمع کے جائز ہونے کی واضح ترین دلیل ہے۔[2] ان سب احادیث کے پیش نظر ہی کثیر صحابہ و تابعین اور ائمہ و فقہا کے نزدیک دورانِ سفر مطلقاً ظہر و عصر اور مغرب و عشا کے مابین جمع کرنا جائز ہے۔[3] نمازی سفر میں رواں ہو یا کہیں ٹھہر چکا ہو،سفر جلد طے کرنے کا ارادہ ہو یا عام رفتار سے جا رہا ہو اور جمع تقدیم سے پڑھے یا جمع تاخیر سے،ہر طرح جائز ہے۔[4] سفر حج میں جمع کرنا: عام سفروں کے علاوہ خاص سفر حج میں بھی قصر و جمع اسی طرح ثابت ہے،مگر حجاج کی کثیر تعداد اس رعایت سے مستفید نہیں ہوتی۔میدانِ عرفات و مزدلفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع و قصر سے ظہر و عصر اور مغرب و عشا ادا فرمائیں،ظہر و عصر کو ظہر کے وقت اور مغرب و عشا کو عشا کے وقت پڑھا تھا۔اس کے سنّت ہونے میں تمام ائمہ و فقہا کا اتفاق ہے۔[5] کیونکہ صحیح مسلم،سنن نسائی اور مسند احمد میں حضرت جابر صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدانِ عرفات میں ایک اذان اور دو
Flag Counter