Maktaba Wahhabi

73 - 738
استقبالِ قبلہ کے انداز و طریقے کے سلسلے میں سنن کبریٰ بیہقی کی ایک روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ((اَلْبَیْتُ قِبْلَۃٌ لِأَہْلِ الْمَسْجِدِ،وَالْمَسْجِدُ قِبْلَۃٌ لِأَہْلِ الْحَرَمِ‘ وَالْحَرَمُ قِبْلَۃُ اَہْلِ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ))[1] ’’عین بیت اللہ شریف ان لوگوں کا قبلہ ہے جو مسجدِ حرام میں موجود ہوں اور مسجدِ حرام اُن لوگوں کے لیے قبلہ ہے جو حدودِ حرم کے اندر ہوں اور پورا حرم ان لوگوں کے لیے قبلہ ہے جو مشرق و مغرب(تمام بیرونی دنیا)والے ہیں۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے،لیکن یہ روایت ضعیف ہے،کیونکہ خود امام بیہقی رحمہ اللہ ہی نے اسے نقل کر کے کہا ہے کہ اسے روایت کرنے میں ’’عمر بن حفص مکی‘‘ منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔یہ حدیث ایک اور سند سے بھی مروی ہے،لیکن وہ بھی ضعیف ہے اور ایسی روایت سے احتجاج و استدلال نہیں کیا جا سکتا۔[2] غرض کہ امام ابو حنیفہ،امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا مسلک یہ ہے کہ دُور والوں کے لیے عین قبلے کا استقبال فرض نہیں،بلکہ صرف جہتِ قبلہ ہی کافی ہے۔امام مزنی کی نقل کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ کا ظاہر قول بھی یہی ہے،البتہ امام شافعی سے یہ بھی منقول ہے کہ وہ عین قبلے کے استقبال کے قائل تھے۔[3] جنگل میں،بلادِ کفر و شرک یا اندھیرا ہونے کی صورت میں: اگر کوئی شخص کسی ایسے مقام پر ہو،جہاں ہر سُو جنگل ہی جنگل ہو،یا پھر اُسے بادل یا اندھیرے کی وجہ سے یا بلادِ کفر و شرک میں ہونے کی وجہ سے قبلہ کا پتا نہ چل رہا ہو کہ وہ کس جانب ہے؟تو ایسے شخص کو چاہیے کہ امکانی حد تک قبلہ اور جہتِ قبلہ کی جستجو کرے اور بھرپور کوشش کے بعد اپنے گمان غالب کے مطابق کسی ایک طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے۔اگر نماز سے فارغ ہو جانے کے بعد پتا بھی چل گیا کہ اس نے غلط سمت پر نماز پڑھی ہے،اس کے باوجود اس کی نماز صحیح ہوگی اور صحیح سمت معلوم
Flag Counter