Maktaba Wahhabi

739 - 738
جمہورکا ’’وَلَمْ یَقْضُوْا‘‘ کی یہ تاویل کرنا: ’’وَلَمْ یُعِیْدُوا الصَّلَاۃَ بَعْدَ الْاَمْنِ‘‘[1] ’’انھوں نے امن حاصل ہونے کے بعد اُس نماز کو دہرایا نہیں۔‘‘ یہ تاویل دُور کی کوڑی لانے والی بات اور بقول علامہ شوکانی بہت ہی بعید از قیاس ہے۔[2] ان سب تفصیلات سے معلوم ہوا کہ خوف کی بعض حالتوں میں صرف ایک ہی رکعت ادا کر لینا بھی کفایت کر جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خوف و جنگ کے زمانے میں تو مجاہدین کو اللہ تعالیٰ نے بھی بہت آسانیاں عطا فرمائی ہیں،جن میں سے سورۃ النساء کی آیت(102)میں مذکورہ صلاۃ الخوف ہے۔سورۃ البقرہ آیت(239)نے تو نماز کے بارے میں بعض سخت قواعد و ضوابط کی پابندی بھی ختم کر دی۔چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: ﴿فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرۃ:239] ’’خوف اور بد امنی کی حالت ہو تو خواہ پیدل ہو یا سوار،جس طرح ممکن ہو نماز پڑھ لو،لیکن جب امن میسر آجائے تو اللہ تعالیٰ کو اسی طریقے سے یاد کرو جو اُس نے تمھیں سکھا دیا ہے،جس سے تم پہلے ناواقف تھے۔‘‘ زمانۂ خوف کی نماز کے بارے میں بعض دیگر آسانیوں کی تفصیل صحیح بخاری شریف،’’باب صــلاۃ الخوف رجالا و رکبانا‘‘ اور ’’باب الصلاۃ عند مناہضۃ الحصون ولقاء العدو‘‘ اور ان ابواب کی شروح فتح الباری میں دیکھی جا سکتی ہے۔(2/ 431۔433،34۔36) نمازِ خوف کے بعض دوسرے طریقے بھی معمولی فرق سے ملتے ہیں،جو مذکورہ کتب کے متعلقہ ابواب میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ نمازِ خوف ادا کرنے کے یہ چھے طریقے صحیح احادیث سے ثابت ہیں۔ان میں سے حسبِ موقع جس پر بھی عمل ممکن ہو،امام کو اختیار ہے کہ اسے ہی اپنا لے،کیونکہ یہ سب جائز اور ثابت ہیں۔[3]
Flag Counter