Maktaba Wahhabi

742 - 738
بارے میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول یا فعل کے وجود کی نفی کی ہے،البتہ سنن بیہقی میں حضرت علی رضی اللہ کے بعض آثار سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے خوف کی حالت میں نمازِ مغرب پڑھائی تھی اور انھوں نے پہلے گروہ کو ایک رکعت اور دوسرے کو دو رکعتیں پڑھائی تھیں،جبکہ البحر الرائق میں اس کے برعکس مذکور ہے کہ انھوں نے پہلے گروہ کو دو اور دوسرے کو ایک رکعت پڑھائی تھی۔ الغرض احناف اور مالکیہ نے اسے ہی اختیار کیا ہے کہ پہلے گروہ کو دو رکعتیں اور دوسرے کو ایک رکعت پڑھائے،جبکہ امام شافعی و احمد رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ سے مروی راجح تر روایت کے مطابق اس بات کو بھی جائز قرار دیا ہے کہ پہلے کو ایک رکعت اور دوسرے کو دو رکعتیں پڑھائے۔[1] ان ہر دو طریقوں کے مطابق جس گروہ کی جتنی نماز امام کے بغیر ہوگی،اس کو ادا کرنے کی شکل حضرت سہل رضی اللہ سے مروی صلاۃ الخوف کے پہلے طریقے میں گزر چکی ہے۔[2] ان سب طریقوں سے نماز کو بروقت ادا کرنے اور جماعت کی اہمیت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ گھمسان کی جنگ اور دست بدست لڑائی میں نماز؟ گھمسان کی جنگ اور دست بدست لڑائی کی شکل میں اگر نماز باجماعت ممکن نہ ہوتو سورۃ البقرہ کی آیت(239)میں ارشادِ الٰہی اور صحیح بخاری و مسلم میں مذکور احادیث کی رو سے پیدل یا سوار،قبلہ رو ہو کر یا جدھر بھی منہ ہو،ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر ہی نماز پڑھ لے،رکوع و سجود کے لیے صرف اشارے سے کام لے اور رکوع کی نسبت سجدے کے لیے اشارہ کرتے وقت کچھ زیادہ جھکے۔[3] تعاقب کرنے والے اور تعاقب کیے جانے والے کی نماز: ’’صلاۃ الطالب والمطلوب راکعًا وإیمائً‘‘ صحیح بخاری شریف کے ایک باب کا عنوان ہے،جس میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ احزاب سے واپس
Flag Counter