Maktaba Wahhabi

768 - 738
طرح دعا کرنے کی خصوصیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یا امام کے لیے ثابت نہیں،اس لیے فرض نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرناامام اور مقتدی دونوں کے لیے جائز ہوگا۔[1] تیسرا انداز: تیسری صورت ہے اجتماعی دعا کرنا،یعنی امام اور مقتدی سب ہاتھ اٹھائے ہوئے ہوں،امام بلند آواز سے دعا کرتاجائے اور مقتدی آمین آمین کہتے جائیں۔یہ انداز اگر التزام کے ساتھ نہ ہو،بلکہ بلا التزام کبھی کبھی ایسا کر لیا جائے تو کثیر محققین نے اسے جائز قراردیا ہے،جس کے جواز کے بارے میں متعدد روایات ملتی ہیں،جنھیں برصغیر کے محدثِ کبیر علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے ترمذی شریف کی شرح تحفۃ الاحوذی میں نقل کیا ہے اور کئی صفحات پرمشتمل تحقیقی بحث میں اس موضوع کی وضاحت کی ہے۔[2] چوتھا انداز: اس مروّجہ طرزِ دعا کی چوتھی صورت یہ ہے کہ اس اجتماعی انداز پر ہمیشگی کی جائے۔پانچوں وقت فرضوں کے بعد بلا ناغہ امام بلند آواز سے دعا کرتا جائے اور مقتدی آمین کہتے جائیں۔دعا کی اس ہیئت کذائی کو ضروری سمجھ کر اس کا التزام کیا جائے تو اس کا ثبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملتا۔اگرمروّجہ ہیئت پر عہد نبوت میں عمل ہو رہا ہوتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جو جم غفیر تھا،ان میں سے کسی سے یہ بات ضرور منقول ہوتی۔محرک و دواعی نقل موجود ہونے اور مانع کے مرتفع ہونے کے باوجود عدمِ نقل عدم وقوع اور ترک کی دلیل ہے۔اس کا دعاے قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے پابند ہو جانا،محض قیاس آرائی ہے دلیل نہیں،کیونکہ کسی امر کے بطورِ عبادت مشروع و مسنون ہونے کے لیے خاص و صریح نص کی ضرورت ہوتی ہے،جو اس مسئلے میں موجود نہیں ہے۔جو عام روایات اس خاص شکل کے جواز پر بطور استدلال پیش کی جاتی ہیں: 1۔ تو وہ خاص و صریح نہ ہونے کی وجہ سے قابل استدلال نہیں۔ 2۔ ان میں اکثر روایات متکلم فیہ ہیں۔ بلکہ مصنف ابن ابی شیبہ کے حوالے سے ایک حدیث بڑے شد و مد سے پیش کی جاتی ہے،
Flag Counter