Maktaba Wahhabi

157 - 868
گیا ہے کہ (الماءُ طَهورٌ لا يُنجِّسُهُ شيءٌ) "پانی پاک ہے اور اسے کوئی شے نجس نہیں کرتی ہے"[1] اور یہی قاعدہ حدیث قلتین[2]پر بھی جاری ہوتا ہے۔اگر پانی قلتین (دو بڑے بڑے مشکوں کی مقدار) سے کم ہو اور اس میں کوئی نجاست پڑ جائے اور پانی اپنی حقیقت بدل جائے (ذائقہ،رنگ یا بو بدل جائے) تو وہ پلید ہو گا اور ایسے ہی اگر دو قلعوں سے زیادہ ہو تو بھی۔(محمد ناصر الدین الالبانی ) نواقض وضو سوال:وہ کیا امور ہیں جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ جواب:نواقض وضو (وہ امور جن سے وضو ٹوٹ جاتا ہے) کے بارے میں علماء میں کچھ اختلاف ہے۔مگر ہم وہی ذکر کرتے ہیں جو باعتبار دلیل واضح ہیں: (1) قبل یا دبر سے کچھ نکلنا:۔۔یعنی پیشاب،پاخانہ،مذی،منی وغیرہ جو قبل یا دبر سے نکلے،وضو توڑنے کا سبب ہے۔اتنا ضرور ہے کہ اگر منی کا اخراج شہوت و جذبات کے زیر اثر ہو تو اس سے غسل واجب ہوتا ہے۔اور اگر صرف مذی ہو تو اس سے صرف شرمگاہ اور خصیتین دھونے کے بعد وضو کر لینا کافی ہوتا ہے۔ (2) گہری نیند:۔۔اگر کسی کو نیند اس طرح سے آ جائے کہ اگر ریح خارج ہو تو بھی بے خبر رہے،اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔لیکن اگر کم اور ہلکی ہو،کہ ریح خارج ہو تو اسے خبر ہو جائے تو وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ لیٹ کو سوئے یا بیٹھ کر،سہارا لے کر یا بلا سہارا سوئے۔دیکھنا یہ ہے کہ اس کا دل ہوشیار ہے یا نہیں۔اگر ہوشیار ہے کہ بے وضو ہونے کی صورت میں اسے معلوم ہو جاتا ہے تو یہ ناقض وضو نہیں ہے اور اگر اس پر غفلت طاری ہو کہ بے وضو ہونے کی اسے خبر نہ ہو تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اس پر وضو کرنا واجب ہو گا۔اور یہ اس لیے ہے کہ بعض نیند ناقض وضو نہیں ہے بلکہ اس میں بے وضو ہو جانے (اور ہوا خارج ہو جانے) کا محض احتمال ہوتا ہے۔تو جب آدمی سے ہوا خارج نہیں ہوئی،کیونکہ آدمی باشعور اور ہوشیار ہے تو وضو نہیں ٹوٹتا۔اس کی دلیل یہ ہے کہ معمولی نیند ناقض وضو نہیں ہے۔اگر محض نیند ناقض وضو ہوتی خواہ وہ کم ہوتی یا
Flag Counter