Maktaba Wahhabi

184 - 868
ہے کہ کافروں سے مشابہت حرام ہے۔آپ علیہ السلام کا فرمان ہے:"مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ "[1] ’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہے۔‘‘ 3: ختنے میں جسم کا ایک ٹکڑا کاٹنا ہوتا ہے،اور جسم کا کوئی حصہ کاٹنا حرام ہے۔اور حرام کو کسی واجب ہی کے لیے حلال کیا جا سکتا ہے،لہذا ختنہ واجب ہوا۔ 4: ختنہ اگر کسی یتیم کا کرنا ہو تو اس کا ذمہ دار اس کا ولی اور سرپرست ہے۔اور ختنہ کرنا بظاہر اس یتیم کی جان اور اس کے مال میں تعدی اور ظلم کے مترادف ہے کیونکہ ختنہ کرنے والے کو اس کی اجرت دی جانی ہوتی ہے۔اور اگر یہ عمل ختنہ واجب نہ ہوتا تو اس یتیم کے مال اور جسم پر یہ تعدی اور ظلم جائز نہ ہوتا۔یہ کچھ عقلی اور نقلی دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ختنہ مردوں کے لیے واجب ہے۔ البتہ عورت کے لیے اس کا واجب ہونا محل نظر ہے۔اس سلسلے میں ایک حدیث آتی ہے کہ: " الْخِتَانُ سُنَّةٌ فى حق الرجَالِ مَكْرُمَةٌ فى حق النِّسَاءِ " ’’ختنہ مردوں کے حق میں سنت اور عورتوں کے لیے کرامت اور شرافت کا باعث ہے۔‘‘ [2] مگر یہ حدیث ضعیف ہے،اگر یہ صحیح ہوتی تو فیصل ہو سکتی تھی۔(محمد بن صالح عثیمین) موزوں اور پٹیوں پر مسح کے مسائل سوال:موزوں اور جرابوں سے کیا مراد ہے اور ان پر مسح کرنے کا کیا حکم ہے؟ جواب:خف سے مراد وہ لفافہ سا ہے جو چمڑے وغیرہ کا بنا ہوتا ہے اور پاؤں پر پہنا جاتا ہے (جس کا اردو ترجمہ 'موزہ' ہے) اور جورب سے مراد وہ ہے جو روئی وغیرہ سے بنا ہوتا ہے۔اور ان دونوں پر مسح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔لہذا جس نے یہ پہنے ہوئے ہوں[3]اسے وضو کے لیے ان کو اتار کر پاؤں دھونے کی بجائے ان پر مسح کرنا افضل ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا،اور میں نے چاہا کہ آپ کے موزے اتار دوں،تو آپ نے فرمایا:"انہیں رہنے دے،میں نے ان کو طہارت کر کے پہنا تھا۔"[4] چنانچہ پھر آپ نے ان پر مسح کیا۔ موزوں پر مسح کرنا قرآن حکیم اور احادیث نبویہ دونوں سے ثابت ہے۔قرآن مجید میں ہے:
Flag Counter