Maktaba Wahhabi

271 - 868
بچیں۔اور جو اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی زیب و زینت اور جمال کا اظہار کرتے ہوئے نکلتی ہیں اور خوشبوئیں لگا کر آتی ہیں تو یہ سب ان کی جہالت اور ان کے ذمہ داران کی کمزوری کا باعث ہے۔اس تقصیر کے باعث انہیں ایک عام شرعی حکم سے نہیں روکا جا سکتا کہ وہ عید کے لیے نہ جائیں۔ اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ایک معروف قاعدہ ہے کہ جب کسی جائز کام کا نتیجہ حرام کی صورت میں نکلتا ہو تو وہ جائز بھی حرام ہو جاتا ہے۔اگر عورتوں کی ایک کثیر تعداد شرعی انداز میں باہر نکلتی ہو تو ہم عمومی طور پر سب کو اس سے منع نہیں کر سکتے بلکہ ہم صرف انہیں ہی روکیں گے جو شرعی آداب کی مخالفت کرتی ہیں۔(محمد بن صالح عثیمین) متفرق مسائل سوال:کیا نمازی سجدہ کے لیے جاتے ہوئے پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھے یا ہاتھ،اور گھٹنے اس کے بعد؟ جواب:سنن ابوداؤد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إذا سَجَدَ أحدُكم فلا يَبرُك كما يَبرُكُ البعيرُ،وليَضَع يديهِ قبل رُكبتيهِ " "جب تم میں سے کوئی سجدہ کرنے لگے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے،چاہیے کہ اپنے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے پہلے رکھے۔"[1] اس حدیث کے بارے میں کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس کے الفاظ آگے پیچھے ہو گئے ہیں۔یعنی راوی نے یوں کہنا چاہا تھا کہ (وليضع ركبتيه قبل يديه) "چاہیے کہ وہ اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے پہلے رکھے۔" کیونکہ اونٹ جب بیٹھتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں کے بل پر ہی بیٹھتا ہے اور اس کے گھٹنے اس کے ہاتھوں ہی میں ہوتے ہیں،نہ کہ پچھلی ٹانگوں میں،اور اونٹ اور انسان میں اس طرح سے فرق ہے۔مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "جب تم میں سے کوئی سجدہ کرنے لگے تو ایسے نہ بیٹھے جیسے کہ اونٹ بیٹھتا ہے۔" مفہوم واضح ہے کہ نمازی اپنے گھٹنوں کے بل نہ بیٹھے جیسے کہ اونٹ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھتا ہے بلکہ چاہیے کہ نمازی پہلے اپنے ہاتھ رکھے اس کے بعد اپنے گھٹنے ٹکائے۔ اس حدیث کے برخلاف دوسرے حضرات کی دلیل بھی سنن ابی داود وغیرہ میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ سجدہ کرتے تھے تو آپ اپنے گھٹنے اپنے ہاتھوں سے
Flag Counter