Maktaba Wahhabi

721 - 868
سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کی والدہ آئی اس کا ارادہ تھا،اور وہ چاہتی تھی کہ بیٹی اس کے ساتھ کوئی تعاون کرے،تو اسماء رضی اللہ عنہ نے اس سے پہلو تہی کی،پھر سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور دریافت کیا کہ میری والدہ میرے ہاں آئی ہے اور وہ مجھ سے کچھ تعاون چاہتی ہیں،تو کیا میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا:"اس کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔"[1] الغرض اس میں ایک طرح کا ابتلاء اور آزمائش ہے۔اللہ نے دلوں میں مال و اولاد کی محبت ڈال دی ہے: الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا (الکھف:18؍46) "مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں۔" اور فرمایا: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ (آل عمران:3؍14) "لوگوں کے لیے خواہشات نفس سے محبت یعنی عورتوں سے،بیٹوں سے،سونے اور چاندی کے جمع کردہ خزانوں سے دلفریب بنا دی گئی ہے۔" (محمد بن عبدالمقصود) خادمہ کے ساتھ خلوت سوال:گھروں میں مرد عورتیں بطور خادم رکھنا کیسا ہے،جبکہ بعض ان میں سے غیر مسلم بھی ہوتے ہیں؟ جواب:کسی مسلمان مرد کے لیے روا نہیں ہے کہ اپنے گھر میں کسی کافر عورت کو موقع دے کیونکہ یہ کافر خادمہ یقینا مسلمان عورت کے پردے کے اعضاء پر بھی مطلع ہو گی اور مسلمان خاتون کا کسی کافر عورت کے سامنے عیاں ہونا ایسے ہی ہے جیسے کہ مرد کے سامنے ہونا،تو مسلمان خاتون کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنا آپ کسی کافر عورت کے سامنے نمایاں کرے خواہ وہ خادمہ ہی کیوں نہ ہو،سوائے اپنے چہرے اور ہاتھوں کے۔جب عورت کا یہ معاملہ ہے تو کسی کافر مرد کو بطور خادم رکھنا تو اور زیادہ سخت ہے۔اسی طرح کسی مسلمان کو اگر خادم رکھا ہے (تو عورت اس کے سامنے نہیں ہو سکتی)۔اور اگر کوئی گھرانہ کسی عورت کو بطور خادمہ رکھنا بھی چاہتا ہو تو ضروری ہے کہ وہ مسلمان عورت ہو۔(ناصر الدین الالبانی) سوال:کسی معاملہ کی تحقیق و تفتیش کے لیے کسی مرد کا کسی عورت کے ساتھ تخلیہ میں ہونا کیسا ہے؟ جواب:کوئی مرد ہرگز کسی عورت کے ساتھ تخلیہ اور علیحدگی میں نہ ہو،خواہ تحقیق و تفتیش ہی ہو۔اور عورت کو لازما
Flag Counter