Maktaba Wahhabi

837 - 868
استطاعت کے تحت اسے خاموشی سے سن بھی رہا ہوتا ہے۔[1] (صالح بن فوزان) اختلاط اور میل جول سوال:حدیث نبوی (لَا تُصَاحِبْ إِلا مُؤْمِنًا۔۔۔الخ) "ہمیشہ کسی مومن ہی کی صحبت اختیار کر اور تیرا کھانا کوئی متقی ہی کھائے۔" اس حدیث کا کیا مفہوم ہے؟ اور اس کے کیا حدود ہیں کہ میں کسی مسلمان کو اپنے گھر میں داخل نہ کروں اور اسے کھانا نہ کھلاؤں؟ جواب:اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مسلمان کے لیے اس کا دستور زندگی واضح فرمایا ہے۔اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہے کہ کسی مسلمان کے لیے کسی صالح مومن کے علاوہ کسی کو کھانا کھلانا جائز نہیں ہے۔بلکہ مقصد یہ ہے کہ آپ کا اختلاط اور دلی میل جول ہونا اور کسی مناسبت سے کسی کو کھانا کھلانا خواہ وہ کافر ہو یا فاسق،دو الگ الگ باتیں ہیں۔ایسے لوگوں کو کھانا کھلانا یقینا جائز ہے لیکن دستور زندگی نہیں ہونا چاہیے ۔جیسے کہ دوسری حدیث میں ہے: " مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ،فهو مِثْلُهُ " "جو کسی مشرک کے ساتھ اشتراک و میل جول رکھے،وہ اس کی مانند ہو گا۔" [2] ایک اور حدیث ہے: "الْمُسْلِمُ وَالْمُشْرِكُ لَا تَرَاءَى نَارَاهُمَا" "مسلمان اور مشرک کو ایک دوسرے کی آگ نظر نہیں آنی چاہییں۔"[3]
Flag Counter